بلاگ
Time 18 نومبر ، 2021

موٹر سائیکل کم۔ بڑی بسیں زیادہ

غریب کی سواری۔ غریب پر بھاری۔

روزی کی تلاش میں سب سے زیادہ سفر بھی غریب ہی کرتے ہیں۔ اگر بڑی بسیں۔ مقامی ٹرینیں۔ یعنی عوامی ٹرانسپورٹ میسر ہو تو غریب اکثریت اس پر سوار نظر آئے۔ زیادہ آبادی والے ملکوں میں زیر زمین مقامی ریلوے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ 

پڑوسی ملک اور ہمارے ازلی دشمن بھارت نے بھی دہلی میں جاپان کی مدد سے بڑی آرام دہ زیر زمین ریلوے تعمیر کی ہے۔ آبادی زیادہ ہونے کے تناسب سے اسٹیشن بھی بہت وسیع و عریض۔ ٹرینوں میں بھی گنجائش بہت زیادہ۔ پاکستان میں کسی شہر کو زیر زمین ریلوے نظام نصیب نہیں ہوسکا۔ 

کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کی دلکش اصطلاح1970سے سنتے آرہے ہیں۔ اربوں روپے اس کی امکانی رپورٹوں پر خرچ ہوچکے ہیں۔ کتنے ہی ملکوں سے بات ہوچکی ہے مگر اب تک کراچی والوں کو یہ سہولت نہیں مل سکی۔ بسوں، منی بسوں کی دستیابی محدود ہوتی جارہی ہے۔

وزرائے اعظم فرض شناس ہوں۔ پارلیمنٹ کو انسانی مشکلات کا احساس ہو تو وہ بڑی تعداد میں گھر سے دفتر کارخانے روزانہ سفر کرنے والوں کے لیے سہولت کو اولین ترجیح دیں۔ صرف حکمراں ہی نہیں۔ اپوزیشن۔ سیاسی رہنما۔ علمائے کرام۔ دانشوروں۔ کالم نویسوں۔ اینکر پرسنوں۔ رپورٹروں۔ انجینئرنگ یونیورسٹیوں کا بھی یہی فرض ہے۔ ہمارا میڈیا جن معاملات کو سب سے زیادہ وقت دیتا ہے۔ 

ان کا انسانی ضروریات سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ آئینی موشگافیاں، از خود نوٹس، انتخابی اصلاحات، ان معاشروں میں زیر بحث آتے ہیں جو اپنے بنیادی مسائل حل کر کے ایک سسٹم بناچکے ہوں۔ جس مشکل سے ہر شہر میں لاکھوں نوجوان دوچار ہیں، وہ ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور میڈیا کی ترجیح کیوں نہیں ہے۔ 

جمہوریت کا محور جس اکثریت کے ووٹ ہیں۔ اس اکثریت کی بنیادی ضرورتیں ہماری فکر کا مرکز کیوں نہیں ہیں۔ اس لیے تحقیق یہ کہتی ہے کہ جمہوریت کے ادوار غربت بڑھارہے ہیں۔ غریبوں کی مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں۔ حکمراں آرہے ہیں۔ رُسوا ہوکر جارہے ہیں لیکن غریبوں کے روزانہ سفر میں آسانی ان کے ہاں موضوع بحث بھی نہیں ہے۔تحقیق کرنے والے غور کررہے ہیں کہ سرکلر ریلوے کس کے دَور میں آئی اور کس کے دَور میں ختم ہوئی۔ سپریم کورٹ کے اصرار کے باوجود اب تک مکمل طور پر بحال کیوں نہ ہوسکی؟

پبلک ٹرانسپورٹ یعنی لوکل ٹرین اور بسوں کی عدم موجودگی میں بڑھتی ہوئی آبادی کے غریب نوجوانوں کو اپنے کام کے مقام، دفتر، کارخانے پہنچنے کے لیے مجبوراً موٹر سائیکل کی رفاقت اختیار کرنا پڑی۔ پھر اس صنعت کو فروغ بھی ملتا رہا۔

 غریبوں کو مزید آسانی ہوئی کہ یہ قسطوں پر ملنے لگیں۔ 2017 میں 21506641 اور 2018میں 23588268 موٹر سائیکلیں پاکستان میں زیر استعمال رہیں۔ اندازہ کیجئے ڈھائی کروڑ کے قریب۔ ہر سال 20لاکھ موٹر سائیکلیں تیار کی جا رہی ہیں۔ 

ایک اندازے کے مطابق ساڑھے سات ہزار موٹر سائیکلیں روزانہ سڑک پر مزید اترتی ہیں۔ رجسٹرڈ ہونے والی گاڑیوں میں موٹر سائیکلوں کا تناسب 74فیصد ہے۔بڑھتی آبادی۔ الجھتا ٹریفک۔ سکڑتی سڑکیں۔اگر عوامی بسیں موجود ہوں تو ٹریفک اتنا نہ الجھے۔ سڑکیں محفوظ نہیں ہیں۔ موٹر سائیکلوں کے لیےسڑک پر الگ مخصوص حصّہ نہیں ہے۔ اگر ہے تو موٹر سائیکل سوار اس کی پابندی نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ 2018 میں 5038 موٹر سائیکل سوار لقمۂ اجل بنے۔ 82000 زخمی ہوئے۔ 2019 میں 5014 دم توڑ گئے، 84000 زخمی ہوئے۔ یہ اعداد و شُمار میسر نہیں ہیں کہ کتنے زندگی بھر کے لیے ٹانگوں بازوئوں سے محروم ہوگئے۔

ایک طرف تو موٹر سائیکل سوار کے لیے خطرات 20 گنا زیادہ ہیں۔ دوسری طرف موٹر سائیکل سواری سب سے سستی ہے۔ قسطوں میں دستیاب ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ سواری مکمل آزادی کا احساس دیتی ہے۔ ایک ولولۂ تازہ پیدا کرتی ہے۔ مہم جوئی کو ہوا دیتی ہے۔ جرأت سے ہمکنار کرتی ہے۔ 

ہم نے تو قومی شاہراہوں پر اپنے ہم وطنوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر بڑے انہماک سے موٹر سائیکل دوڑاتے دیکھا ہے۔ یہ نظارے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں بھی پنجاب کی گنجان بستیوں میں بھی۔ سندھ کے ریگستانوں کے درمیان سڑکوں پر بھی اور خیبر پختونخوا میں بھی آنکھوں کو طراوٹ بخشتے ہیں۔ یہ سواری صرف 2 کےلیے بنی ہے۔

 مغرب میں مرد اور گرل فرینڈ کے لیے۔ ہمارے ہاں میاں بیوی کےلیے۔ لیکن افلاس اور تنگدستی پورے پورے خاندان کو اس پر لے جانے پر مجبور کرتی ہے۔ شادیوں میں پورا کنبہ سج دھج کر اس پر بیٹھتا ہے۔ 

جائزوں کے مطابق موٹر سائیکل حادثات اور زیادہ اموات 4بجے صبح سے 10بجے صبح کے درمیان اور 3بجے سہ پہر سے 6بجے شام کے دوران واقع ہوتی ہیں۔ یہی وقت ہے جب ہمارے شہروں میں محنت کش گھر سے کارخانے اور کارخانے سے گھر کا رُخ کرتے ہیں۔ جب سہاگنیں اپنے سہاگ کو۔ مائیں اپنے بیٹیوں کو روزگار پر روانہ کرتی ہیں۔ پھر شام کو چوکھٹ سے لگی ان کےلیے چشم براہ ہوتی ہیں۔ صبح اور شام کے یہ اوقات سڑکوںپر قیامت کا منظر پیش کرتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ اگر سرکلر ریلوے ہو، بسیں ہوں تو کتنے نوجوان محفوظ ہو جائیں۔

جب تک پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہ ہو۔ اس وقت تک موٹر سائیکل سواروں کے لیے تربیت اور آگاہی ہم سب کا فرض ہے۔ یہ ہمارے نوجوان ہیں۔ ہمارے لاڈلے ہیں۔ گھروں کی رونق ہیں۔ جمہوریت کی اساس ہیں۔ ان کےلیے خصوصی لائنیں بنائی جائیں۔ ٹریفک کے قواعد کی پابندی کروائیں۔ بڑے شہروں میں فلائی اوور۔ دو منزلہ سڑکیں بننے سے فاصلے بڑھے ہیں۔ 

موٹر سائیکل سوار ان سے بچنے کے لیے بالکل الٹی سمت اختیار کرلیتے ہیں۔ ٹریفک پولیس ان سے بھتہ وصول کرتی ہے۔آپ کہیں بھی ہیں۔ اپنی طاقت کو پہچانیں۔ اپنے ایم این اے۔ ایم پی اے سے ملیں۔ ان پر دبائو ڈالیں کہ وہ بلدیاتی اداروں کی با اختیار بحالی کےلیے پارلیمنٹ میں آواز بلند کریں۔ پبلک ٹرانسپورٹ بڑی بسوں کی واپسی کے لیے حکمرانوں پر زور دیں۔ کیا اچھی آرام دہ ٹرینیں اور بڑی بسیں پاکستانیوں کے مقدر میں نہیں ہیں؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔