بلاگ
Time 18 نومبر ، 2021

شادی سے آگے کی منزلیں

پاکستان کی بیٹی ملالہ کی شادی ہو گئی۔ دل سے دعائیں اس کے شاد آباد رہنے اور زندگی میں آنے والے اس موڑ کو آگے بڑھنے کا تازیانہ سمجھ کر سمجھ جائے کہ ابھی تو ماسٹرز کرنا ہے، ڈاکٹریٹ ہی مستقبل کا منصوبہ ہو گا اور پھر جس مقصد کے لئے فاؤنڈیشن بنائی ہے جس طرح لڑکیوں کو پڑھانے کا شوق اور ولولہ ہے کہ ملالہ بی بی تم تو جانتی ہو اس زمانے میں بھی ڈھائی کروڑ بچےا سکول سے محروم ہیں ہمارے ساتھ افغانستان ہے جہاں طالبان نے حکومت ہاتھ میں لیتے ہی وعدہ تو کیا تھا کہ عورتوں کو مساوی درجہ اور ہر شعبہ میں کام کرنے کی سہولت حاصل ہو گی۔ 

ملالہ بی بی! تم نے اپنے لیے اپنا شوہر منتخب کیا کاش پاکستان کی لڑکیوں کو بھی یہ حق مل جائے، ورنہ اب تک تو یہ ہوتا آیا ہے کہ جس جوڑے نے اپنی مرضی کرنی چاہی اسے خون میں نہلا کر پورا خاندان کہتاہے کہ ’’ شکر ہے عزت بچ گئی‘‘

ملالہ بی بی ! ایک اور اچھی روایت تم نے ڈالی ہے کہ لمبا چوڑا لاکھوں کا جوڑا نہیں پہنا اور پھر ایک ہزار لوگوں کو شادی کی دعوت میں نہیں بلایا۔ دیکھو توآج کل پاکستان میں ہر سیاست دان (یہ بھی مذاق ہے) دوسروں کو منانے کے لئے ظہرانے دے رہا ہے، مہینے گزر گئے، روز کے کھانے میں شامل لوگوں کو یہ احساس نہیں کہ عام لوگ 170روپے کلوچینی اور دگنی قیمت پر آٹا خرید رہے ہیں۔ کتنا شوق ہے وزیر اعظم بننے اور گل کھلانے کا۔

میری پشاور کی آزردہ ماؤں نے اپنے مرحوم بچوں کو احتجاج کی صورت میں یاد کیا کہ حکومت دیدہ دلیری سے کہہ رہی ہے کہ طالبان کے ساتھ صلح کرنے میں ہی عقلمندی ہے۔ آخر کو عدالت کو یہ معاملہ اپنےہاتھ میں لے کر سرکار عالیہ کوجتانا پڑا کہ لیاقت علی خان کے قتل سے لےکر بی بی بے نظیر کے سفا کا نہ قتل کو فراموش کرنے والوں کو اپنے اسکول کے بچوں کا خون بھی دہائی دیتا نہیں سنائی دیتا۔ 

بہت تکلیف دہ بات یہ ہے کہ سب کچھ سن کر ، سب کچھ جان کر، بڑے اطمینان کے ساتھ کہہ رہے ہیں۔’’یہ ہمارے زمانے میں تو نہیں ہوا‘‘۔ ساتھ ہی یہ ٹکڑا بھی زہر میں بھیگا ہوا لگا دیتے ہیں کہ ’’ہماری حکومت تھی، ہم نے اسی شام میٹنگ کر لی تھی ‘‘۔ اللہ اللہ خیر صلی۔

پاکستان میں تو کوئی سیاست دان ہے ہی نہیں سب کے کرتوت بے نقاب ہو چکے ہیں مگر یہ ساری دنیا کو کیا ہو گیا ہے کہ تین مہینے ہونےکو آئے جنگجو طالبان نے زمام حکومت سنبھالی ہے۔ نہ آئین نہ قانون، نہ وعدے پورے ہو رہے ہیں۔ جن ملکوں نےافغان سرمائے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس کے بارے میں بھی کوئی ہلچل نہیں ہے۔ کوئی بھی ملک مع پاکستان نہ ان کی حکومت کو تسلیم کر رہا ہے ۔ روز ان کی کبھی چین کبھی مسقط کبھی پاکستان اورکبھی ہندوستان میں مذاکرات کے لئے آنیاںجانیاں دیکھ رہے ہیں۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ اسمگلنگ باقاعدہ جاری ہے۔ کبھی چمن کا بارڈر کھلتا ہے تو کبھی طور خم۔کوئی باقاعدہ ضابطہ نہیں ہے۔

 نہ آنےوالوں کا ، نہ جانے والوں کا۔ یہ سلسلہ بھی اس حکومت سے ملتا جلتا ہے جو تین سال سے ہر موقع پر کہے جا رہی ہے کہ جنہوں نے ملک لوٹا ہے، وہ رقم خود ہی واپس کر دیں۔ کان پک گئے ہیں یہ طعنے ، اعلان ، اور تقریریں سنتے سنتے ۔ اگر کوئی ضابطہ قانون ہے تو اس کے ذریعہ وہ خزانے منگوالیں۔ ہم نے اب پرانے باب نہیں سننے یا پھر میڈیا بند کر دیں اور ہم سے پیسے مت لیں۔ حزب مخالف بھی صرف مہنگائی مہنگائی کا نعرہ بلند کر رہی ہے۔ کسی کے پاس منصوبہ ہوتا تو ترین صاحب کو یہ کیوں کہنا پڑتا کہ سب کچھ قابو میں نہیں آسکتا۔

اب روز ظاہر جعفر کی چسکے دار خبریں آرہی ہیں ۔ بھئی قتل صاف ہے۔ میرے معزز جج صاحبان اور کتنا اس ظالمانہ قتل کی واردات سنائی جائیگی۔ اب تو روز درندگی کی شکلیں ہیں۔

عزیز ملالہ، کام کرتی رہو اور نوجوان بلاول کوبھی سکھاؤ کہ مہنگائی کی تقریریں مت کرے۔ بتائے دنیا ہمارے خلاف کیوں ہو رہی ہے۔ اس کا حل ڈھونڈیں۔ انڈیا میں جس کا کوئی تذکرہ نہیں کر رہا کہ کس طرح مسلمانوںکو پیروں تلے روندا جا رہا ہے۔ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ روہنگیا ہو کہ برما کہ افریقی ممالک خشک سالی اور خوراک کی کمی کو کیسے پورا کیا جائے۔ 

یہ وہ زمانہ ہے کہ پانی ختم ہو رہا ہے۔ ماحولیات کی کسی قسم کی پالیسی، سارے ممالک 9دن تک مل کر بیٹھے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ پچھلے دنوں ایک جاپانی فلم دیکھی جس میں دو بہن بھائی ہیں اور ایک جوڑا جوتے کا ہے۔ وہ دونوں باری باری اسکول جاتے اور اسی ایک جوتے کے سہارے، ماں باپ کی طاقت بنے۔ 

علم حاصل کیا اور دنیا میں نام کمایا، ہماری ملالہ نے نام کمایا ہے۔ اس کو برقرار رکھنا ہی نہیں آگے ہی آگے جانا ہے۔ یہ نہ ہو کہ بختاور کی طرح اگلے سال اپنے بچے کی تصویر دکھا رہی ہو۔ اللہ اس کوسلامت رکھے اس نے اپنے لیے سیاست کا نہیں گھریلو زندگی کا پہلو منتخب کیا، ملالہ تم مختلف خاتون ہو، ساری دنیا کی نظریں تمہیں دیکھ رہی ہیں۔ بلاول، ملالہ اور آصفہ ، تم لوگ محنت سے اس قوم کو سنبھال سکتے ہو۔ باقی اور کوئی سرمایہ ہمارے پاس نہیں ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔