Geo News
Geo News

Time 23 نومبر ، 2021
بلاگ

سب سے عمدہ قانون سازی

بری خبروں کے درمیان آج کل ایک بہت اچھی خبر سننے کو مل رہی ہے، وہ اچھی خبر یہ ہے کہ خیر سے قانون سازی ہو رہی ہے، آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ کیسی قانون سازی ہو رہی ہے کہ قانون سازی کرنے والوں کو ہم عام آدمیوں سے ان کی آرا پوچھنے کی کسی قسم کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے، اس میں حیران اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

 آپ کو یادہو گا کہ الیکشن کے دوران الٹے سیدھے، نقلی اصلی ووٹ بیلٹ بکس میں ڈال کر جن قابل ہستیوں کو ہم نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا معزز ممبر بنوایا تھا وہی قابل صد احترام ہمارے منتخب اراکین ملک و ملت کے لئے یعنی آپ کے لئے اور میرے لئے قوانین بناتے اور قوانین میں ترامیم کرتے ہیں۔

میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ ایک مرتبہ پھر حیران اور پریشان ہو رہے ہیں،  پچھتر برس سے یہ کام اسی طرح ہو رہا ہے، چلئے میں آپ کی حیرانی اور پریشانی دور کر دیتا ہوں اس کے بعد میں امید کرتا ہوں کہ آپ حیران اور پریشان ہونا چھوڑ دیں گے۔

 قانون سازی کیلئے یعنی قانون بنانے کیلئے آپ کا میٹرک پاس یا میٹرک فیل ہونا ضروری نہیں ہے،  یاد رکھیں کہ آپکے اور میرے ووٹ میں بڑی طاقت ہے،  کرشماتی طاقت ہے،ہم سے ووٹ لیکر اسمبلی ممبر بننے کے بعد منتخب ارکان کو خود بخود قانون بنانا اور بنے ہوئے قوانین میں ترمیم کرنا یا پھر سرے سے مسترد کردینا خودبخود آ جاتا ہے، اس لئے حیران اور پریشان ہونے کے بجائے آپ کو خوش ہونا چاہئے۔ 

سر بسجود ہونا چاہئے کہ ایسے ایسے لوگ جن کا لکھنے اورپڑھنے سے کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا تھا، آپ سے اور مجھ سے ووٹ لیکر ایوان اقتدار میں پہنچ کر قانونی ماہر بن جاتے ہیں، وہ قانون سازی کرتے ہیں، بنے ہوئے قوانین میں ترمیم کرتے ہیں، اگر اچھا نہ لگےتو بنا بنایا قانون مسترد کر دیتے ہیں۔

رہی بات ہم عوام سے قانون سازی میں مشورہ نہ لینے کی، تو اس میں حیران اور پریشان ہونے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے،  وہ، یعنی قانون سازی کرنے والے ہم غریب عوام کے منتخب نمائندے ہیں، وہ حکومتی ایوانوں میں ہماری نمائندگی کرتے ہیں، وہ لوگ قانون سازی اپنے لیے نہیں، ہمارے لئے کرتے ہیں، ہماری فلاح اور بہبود کیلئے قانون سازی کرتے ہیں۔

یہ جو آپ مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالنے والی بات پر منہ لٹکائے بیٹھے ہیں، اچھی بات نہیں ہے،  مسکرائیے، ہنسیے، آپ کو جو خدشہ تھا کہ پاکستانی عوام یعنی آپ اور میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ 

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے بارے میں کسی قسم کا کوئی علم نہیں رکھتے، اور یہ کہ ووٹ ڈالتے ہوئے بلکہ ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے Touch systemکی وجہ سے غلطیوں کے دفتر کھل جانے کا خدشہ ہے، درست نہیں ہے۔

سائنسی تحقیق کے بعد ماہرین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے سرکار کو یقین دلوایا ہے کہ پاکستان میں ننانوے فیصد لوگ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے واقف ہیں،  اگر یوں کہا جائے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پاکستانیوں کیلئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، تو یہ بات غلط نہیں ہو گی، بیلٹ بکس اکثر چرا لئے جاتے ہیں، یا بدل دیئے جاتے ہیں۔ ایک ہی بیلٹ بکس میں تمام ووٹ ہارنے والے کے ڈال کر جیتنے والے امیدوار کو ہرایا جاتا ہے۔ 

مگر ڈیجیٹل مشین میں اس نوعیت کے، خدشات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے ساتھ نتھی، ایک بدنام لفظ دھاندلی ہمیشہ کے لئے خارج ہو جائے گا۔ 

یوں کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ ہماری انتخابی تاریخ کی لغت سے لفظ دھاندلی ہمیشہ کیلئے حذف کر دیا گیا ہے،  یقین دلوانے والوں نے یقین دلوایا ہے کہ ڈیجیٹل الیکٹرانک مشین کے ہوتے ہوئے دھاندلی کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ گاؤں باگڑ بلا کے لوگ تک ہنستے کھیلتے ڈیجیٹل مشین پر اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دے سکیں گے۔ 

کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی کہ باگڑ بلا گاؤں کے لوگوں نے کس کو ووٹ دیا تھا۔ اس قدر یقین دہانی کے بعد میری طرح آپ بھی مان لیجئے کہ ڈیجیٹل مشین کے آ جانے کے بعد پاکستان میں ہمیشہ صاف شفاف الیکشن ہونگے۔ہم فقیر حیلوں، بہانوں سے اندر کی خبروں کا پتہ چلا لیتے ہیں، اس مرتبہ مخبروں نے ہمیں حیرت انگیز خوش آئند بات بتائی ہے آپ کو یاد ہو گا کہ پچھلے ہفتہ قانون سازی کے دوران حزب اختلاف اور حزب اقتدار اراکین کے درمیان ریکارڈ توڑ دھکم پیل، گالی گلوچ ہوئی تھی اور ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔

حزب اختلاف والے سرکار کے ہر مجوزہ قانون کی مخالفت پر تلے ہوئے تھے مگر ایک مجوزہ قانون کی تجویز ایسی تھی جس کی خاطر حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے رکن ایک پیج پر دکھائی دیے تھے، یہ ہم فقیروں کے لئے بہت بڑی خوش خبری تھی۔ 

ہم فقیروں کی 74 سالہ گزارش قابل شنوائی سمجھی گئی تھی۔ شور شرابے کی وجہ سے وہ قانون اخباروں کی زینت نہ بن سکا اور وہ قانون کسی چینل پر ٹیلی کاسٹ ہونے سے بھی رہ گیا۔ اس مجوزہ قانون کے چیدہ چیدہ نکتے آپ فقیر سے سن لیجئے۔

یاد رہے کہ ایم پی اے اور ایم این اے سرکاری ملازم ہوتے ہیں۔ ان کو ہر ماہ تنخواہ اور الائونس ملتے ہیں۔ اب ان پر سرکاری ملازموں والا قانون لاگو ہو گا۔ رکن اسمبلی بننے کے لئےدرخواست گزار کی عمر کم سے کم اٹھارہ برس اور زیادہ سے زیادہ عمر تیس برس ہو گی، رکن اسمبلی کا عہدہ اعلیٰ عہدوں کے برابر سمجھا جائے گا،  اس لئے اسمبلی رکنیت کے متمنی کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

 رکنیت کے متمنی کو پبلک سروس کمیشن کے تحریری امتحان میں بیٹھنا پڑے گا۔ تحریری ٹیسٹ یا امتحان میں پاس ہونے کے بعد اسمبلی رکنیت کے متمنی کو انٹرویو کے لئے بلایا جائے گا، جس میں وہ ماہرین کے سوالوں کے جواب دے گا،  ان مراحل سے گزر کر اسمبلی رکنیت کا متمنی ایم این اے اور ایم پی اے بن سکے گا اور پھر ساٹھ سال کی عمر میں دیگر سرکاری ملازمین کی طرح اسے ریٹائر ہونا پڑے گا ایک شخص کو کلرک بننے کیلئے ان مراحل سے لازمی طور پر گزرنا پڑتا ہے سرکار، آپ تو ہمارا ملک چلاتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔