24 نومبر ، 2021
چند دنوں سے عدلیہ زیر بحث ہے۔ خاص طور پر ہمارے راوین ثاقب نثار کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پہلے ایک حلفیہ بیان آگیا، رانا شمیم کے بیان میں حقائق ہی درست نہیں تھے مگر میڈیا کو یہ پتہ چل گیا کہ حلفیہ بیان دینے والی کرشماتی شخصیت کو شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی سے بطور وی سی تیس لاکھ ماہانہ ملتا ہے، سالانہ ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ بنتا ہے۔
سندھ کی ایک یونیورسٹی کے یہ قابل ترین وی سی اسلام آباد میں بیٹھ کے کام کرتے ہیں۔ یہاں یہ فلسفہ بھی کام آسکتا ہے کہ کام تو کہیں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسی فلسفے کے تحت انہوں نے بیان حلفی لندن سے تیار کروایا۔ ابھی حلفیہ بیان کی جھاگ بھی نہیں بیٹھی تھی کہ مبینہ طور پر متنازعہ آڈیو سامنے آگئی۔
ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق یہ آڈیو سابق چیف جسٹس کی مختلف تقاریر کے حصوں کو جوڑ کر تیار کی گئی۔ پتہ چلا ہے کہ ثاقب نثار اس آڈیو کے خلاف عدالت کا رُخ کرنے والے ہیں۔ سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون نے تو پہلے لمحے ہی اس آڈیو کو جعلی قرار دے دیا ہے۔
اس کانفرنس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی بطور مہمان شریک تھے مگر عجیب بات ہے کہ اس کانفرنس کی اختتامی تقریر نواز شریف سے کروائی گئی۔ اطلاعات کے وفاقی وزیر فواد چودھری مدعو ہونے کے باوجود اس کانفرنس میں شریک نہ ہوئے بلکہ انہوں نے کہا کہ ’’جس کانفرنس کی اختتامی تقریر ایک مفرور سے کروائی جا رہی ہو، میں اس میں شریک نہیں ہوسکتا‘‘
فواد چودھری بھی راوین ہیں اور احسن بھون کی طرف سے سجائی گئی اس کانفرنس کو متنازعہ بنانے والے اعظم نذیر تارڑ بھی خیر سے راوین ہیں۔ احسن بھون کو خیال کرنا چاہیے تھا کیونکہ یہ کانفرنس عاصمہ جہانگیر کی یاد میں کم اور ن لیگ کا جلسہ زیادہ لگ رہی تھی۔ کانفرنس میں اداروں پر بہت تنقید کی گئی۔ فواد چودھری کہتے ہیں کہ ’’کانفرنس کے منتظمین نے ججز اور یورپی یونین کو چیٹ کیا‘‘
رات ایک ٹی وی انٹرویو میں اطلاعات کے وزیر فرما رہے تھے کہ کانفرنسوں کے لئے فنڈنگ لینے والوں سے متعلق ایف آئی اے تحقیقات کرے گا۔ پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور کہتے ہیں ’’ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں اداروں کی تضحیک کی گئی، تعزیتی ریفرنس میں مرحومہ کے ذکر کی بجائے مفرور شخص نے ایجنڈے کی تشہیر کی‘‘
راولپنڈی ہائی کورٹ بار کے صدر سردار رزاق نے کرد کی تقریر کو غیر ذمہ دارانہ اور نواز شریف کے خطاب کو نامناسب قرار دیا ہے۔ 27 نومبر کو راولپنڈی ہائی کورٹ بار کے تحت کشمیر کانفرنس ہوگی، اس کانفرنس میں کوئی ایسا شخص تقریر نہیں کرے گا جو قانون کو مطلوب ہو۔پہلے ہم سنتے تھے کہ پیسہ بولتا ہے، اب اس کا عملی مظاہرہ دیکھ رہے ہیں۔ پتہ نہیں ہمارا یہ سفر کب ختم ہوگا۔ کبھی قطری خط سامنے آ جاتا ہے توکبھی کیلبری فونٹ کا قصہ چھڑ جاتا ہے۔
کبھی خاموشی ہوتی ہے پھر ایک ویڈیو آ جاتی ہے، شور بپا ہوتا ہے اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے، اچانک ایک حلفیہ بیان سامنے آتا ہے، ساتھ ہی ایک مبینہ آڈیو بھی آ جاتی ہے، رہی سہی کسر کانفرنس پوری کردیتی ہے۔ شاید انہی باتوں کو مدنظر رکھ کر عمران خان نے اپنے ترجمانوں سے کہا ہے کہ ’’عدلیہ سے متعلق ن لیگ کی تاریخ کو اجاگر کریں کیونکہ ن لیگ ایک مافیا ہے، مرضی کے فیصلے کرانا ان کی تاریخ ہے‘‘
آج کل مودی سرکار شدید دبائو میں ہے۔ بیرونی ناکامیوں کےبعد انہیں گھر میں بھی خفت کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔ بیرونی دنیا میں انہوں نے اجیت کمار دوول کے کہنے پر ڈالروں سے فصل بوئی مگر پھر فصل ہی خراب ہوگئی، عرب دنیا میں بھی مودی جی کا بے عزتی پروگرام شروع ہو گیا ہے۔
اندرونی حالات بہت خراب ہیں۔ سکھوں کے ریفرنڈم کے پہلے ہی جھٹکے میں مودی نے کسانوں سے متعلق تینوں قوانین منسوخ کردیئے ہیں۔ کچھ عرصے بعد آپ کو یہ خبر بھی مل جائے گی کہ مودی جی نے کشمیر کے سلسلے میں بھی اپنا تھوکا چاٹ لیا ہے۔ اس سلسلے میں بھی مودی پردبائو بڑھتا جا رہا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے حالات مخدوش ہیں جبکہ پاکستان میں ماحول بالکل مختلف ہے۔ حال ہی میں گورونانک کے 552 ویں جنم دن کی تقریبات ننکانہ صاحب اور کرتار پور میں بھرپور طریقے سے ہوئی ہیں۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کلبھوشن یادیو سےمتعلق ایک بل پاس ہوا ہے۔ ہماری اپوزیشن تو اسے بہت سے رنگ دے رہی ہے مگر حقیقت حال کو قانون کے وفاقی وزیر بیرسٹر فروغ نسیم نے بیان کردیا ہے۔
فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ ’’کلبھوشن یادیو کیس ہمیں ورثہ میں ملا، کلبھوشن یادیو کےلئے بنایا گیا قانون کسی ایک فرد کے لئے نہیں۔ اس معاملے پربھارت نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا اور کلبھوشن یادیو کو بری کرنے کی اپیل کی تھی۔ پاکستان عالمی عدالت انصاف میں یہ مقدمہ جیت چکا ہے۔ عالمی عدالت انصاف ہی نے کہا تھا کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے، اسی کے تناظر میں یہ قانون سازی کی گئی ہے۔ ہم نے قانون سازی کے ذریعے بھارت کے ہاتھ کاٹ دیئے ہیں۔ تنقید کرنے والوں کو ادراک ہی نہیں اگر ہم قانون نہ بناتے تو بھارت پاکستان کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں توہین عدالت کا مقدمہ دائر کردیتا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان پرپابندیاں لگوانے کی کوشش کرتا۔ اپوزیشن نے کلبھوشن یادیو کے معاملے کو سیاسی ہتھیار بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں غلط معلومات پھیلاتے وقت اپوزیشن کو سیکورٹی ریڈ لائنز کا خیال رکھنا چاہیے‘‘۔
قانون کے وفاقی وزیر بیرسٹر فروغ نسیم کی باتیں درست ہیں۔ ہمیں اپنی سیاست کی خاطر اتنا آگے نہیں جانا چاہیے کہ ریاست ہم پر شرمندہ ہو۔ الزامات کے اس پورے سازشی میلے میں بس یہی یاد آ رہا ہے کہ :
کوئی ایسا بول سکھا دے ناں!!
وہ سمجھے خوش گفتار ہوں میں
کوئی ایسا عمل کرا دے ناں!!
وہ جانے، جاں نثار ہوں میں
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔