28 نومبر ، 2021
اردو کی ایک کہاوت ہے ’’بیوقوف دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہوتا ہے‘‘۔ پاکستان کی حکومت کی صورت گری بھی اِن دنوں اِسی کہاوت کے مصداق بن چکی ہے کیونکہ ’ہمیں‘ بھی اسی قسم کے بعض دوست میسر ہیں!
گزشتہ ہفتے کی خبر ہے کہ برطانیہ اور پاکستان نے ایک دوسرے کے ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم تارکینِ وطن کو واپس بھیجنے کے ایک دو طرفہ معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت برطانوی اور پاکستانی حکام ایک دوسرے کے ساتھ کریمنل ریکارڈ بھی شیئر کر سکیں گے۔
اب پاکستان کی وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اس معاہدے پر رواں سال کے آخر تک عملدر آمد شروع ہو جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کے مشیر شہزاد اکبر اور سیکرٹری برطانوی وزارتِ داخلہ میتھیو رئیکرافٹ نے اس معاہدے کو حتمی شکل دی ہے۔
گزشتہ سال دسمبر میں یہاں اخبار ’’سن‘‘ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ امیگریشن حکام نے 40غیرقانونی تارکین کو برطانیہ کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا اور ایک چارٹرڈ فلائیٹ کے ذریعہ پاکستان بھجوا دیا لیکن پاکستان نے انتہائی سخت موقف اپناتے ہوئے کہا، ہم ان افراد کو واپس نہیں لیں گے، اس سے پہلے آپ نواز شریف کو ہمارے حوالے کریں۔
رواں سال اگست میں ایک رپورٹ میڈیا میں آئی کہ برطانوی سیکورٹی اور یورپی انٹیلی جنس سروسز نے خطے میں مقیم پاکستانی جلاوطن افراد کو خبردار کیا ہے کہ ان بہت سے افراد کی زندگیاں یورپ اور برطانیہ میں بھی خطرے میں ہیں، انہیں یورپ و برطانیہ میں رہتے ہوئے بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
برطانیہ اگرایسے لوگوں کو بھی پاکستان کے حوالے کر دے گا تو پھر بنیادی انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کا کیا ہوگا؟ جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے تو یہاں قوانین کچھ بھی بن جائیں، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن برطانیہ کا ہوم آفس ماضی میں بھی اور آج بھی ہمیشہ یہ کوشش کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ غیرملکی افراد کو کسی نہ کسی قانون کا سہارا لے کر ملک سے نکال کر ان کے اصل وطن واپس بھیجا جائے لیکن برطانوی عدالتیں اور عالمی عدالتِ انصاف ہمیشہ ان کے اس قدم کے آڑے آتی ہیں۔
دنیا کے بے شمار ترقی پذیر ممالک، چین ہو یا بھارت و پاکستان، ان ممالک کے برطانیہ میں قائم سفارت خانے حتیٰ الوسع کوششں کرتے ہیں کہ ایسے گرفتار تارکینِ وطن جن کے کاغذات نامکمل ہوں اور ان کی شہریت کی تصدیق کے لئے برطانوی حکام انہیں ان سفارتخانوں میں لے کر آئیں تو کسی نہ کسی بہانے ان کے کاغذات کی تصدیق نہ کی جائے تا کہ انہیں واپس نہ بھجوایا جا سکے۔
چنانچہ ایسی صورت میں برطانوی حکام مجبور ہوتے ہیں کہ ایسے افراد کو کسی نہ کسی اسٹیٹس کے تحت برطانیہ میں ہی رہنے دیا جائے بلکہ چین کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تو صاف کہتے ہیں کہ اگر اس شخص کے پاس چائنہ کی کوئی شناختی دستاویز نہیں تو یہ ہمارا شہری نہیں ہے چنانچہ اس ’نہ‘ کا مقصد ہوتا ہے کہ ہمارے زیادہ سے زیادہ لوگ یہاں رہیں اور اپنے ملک کو زرمبادلہ بھی بھیجیں اور ملک پر آبادی کا بوجھ بھی کم ہو۔
پاکستان کی 74سالہ تاریخ میں تحریک انصاف کی یہ پہلی حکومت اور یہ پہلے خودسر اور کج رو مشیر ہیں جو کسی دوسری حکومت کے ساتھ ایک ایسے معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں جو برطانیہ کے تو سراسر حق اور اس کی دیرینہ خواہش کے مطابق ہے لیکن نہ تو پاکستان کے فائدے میں ہے اور نہ ہی برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے مفاد میں بلکہ یہ اُن پاکستانیوں کیلئے کسی تازیانے سے کم نہیں، حکومت پاکستان کا یہ قدم تو ’قہر درویش برجان درویش‘ کے مصداق اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف ایک ایسا کالا قانون ہے جس پر حکومت کے موصوف مشیر ’بغلیں بجا رہے ہیں‘۔
حالیہ محتاط اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں 8سے 12لاکھ غیرقانونی تارکین وطن ہیں اور ان کے تقریباً 50ہزار بچے جو یہاں پیدا ہوئے، موجود ہیں۔ ظاہر ہے ان میں پاکستانی بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ کبھی ہمارے ’عقلمند‘ مشیروں نے سوچا ہے کہ یہ پاکستانی اپنا ملک چھوڑ کر اس دیارِ غیر میں دھکے کیوں کھا رہے ہیں؟
یہ اپنی ماؤں، بہنوں کے زیور بیچ کر کس خطرناک طریقے اور کسمپری کی حالت میں یہاں پہنچنے میں کامیاب ہوتے اور پھر کیسی کیسی محنتیں کرکے اپنے رہن سہن اور نانِ شبینہ کا بندوبست کرتے ہیں، لہٰذا اگر پاکستان کی حکومت نے اس قسم کے ’شہری مخالف‘ معاہدے کی توثیق کر دی تو پھر اس حکومت کا یہ ایک مزید ایسا سیاہ کارنامہ ہوگا جسے پاکستان کے عوام صدیوں بُھلا نہیں پائیں گے۔
ایسے میں ہماری تو وزیراعظم عمران خان سے استدا ہوگی کہ اپنے لیے ’عقلمند دشمن‘ تلاش کریں کیونکہ اس قسم کے قانون کی موجودگی میں برطانیہ دھڑا دھڑ ایسے پاکستانیوں کو بھی واپس بجھوانا شروع کردے گا جن کے مقدمات قدرے کمزور یا عدالتوں میں زیر سماعت ہوں گے تو بتائیں اس میں پاکستان کا کیا فائدہ ہوگا؟ جہاں تک اس قانون کی آڑ میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ دونوں ملک کریمنل ریکارڈ شیئر کر سکیں گے یا میاں نواز شریف کو برطانیہ واپس بجھوا دے گا تو یہ بھی ’دیوانے کی بڑ‘ سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کیونکہ ایک تو نواز شریف غیرقانونی تارک وطن نہیں ہیں اور نہ کبھی ہوں گے، حالت یہ ہے کہ میاں نواز شریف فیملی اور اسحاق ڈار یہاں برطانوی عدالتوں سے کلیئر ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان میں بعض ریٹائرڈ جج خود پر ڈالے گئے دباؤ پر اپنا مافی الضمیر بیان کر رہے ہیں تو کیا ایسے حالات کے ہوتے ہوئے برطانیہ کی عدالتیں نواز شریف کیخلاف حکومت پاکستان کی کسی دلیل کو تسلیم کریں گی؟
دوسرا یہ کہ کریمینل ریکارڈ تو ہمیشہ پاکستان ہی برطانیہ سے شیئر کرے گا کیونکہ اس قانون کی دونوں شقوں میں فائدہ صرف برطانیہ کا ہے اور نقصان صرف پاکستان یا اس کے شہریوں کا، بھلا کوئی بتا سکتا ہے کہ کیا کوئی ایسا انگزیز یا برطانوی شہری پاکستان میں مقیم ہے جس نے وہاں سیاسی پناہ لی ہو، وہ غیرقانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہو یا کسی برطانوی سیاست دان، بزنس مین یا کسی عام شہری نے برطانیہ سے دولت لوٹ کر پاکستانی بینکوں میں جمع کروائی ہو تو پھر پاکستان کو اس قانون کا کیا فائدہ ہوگا آخر؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔