01 دسمبر ، 2021
سینئر صحافی احمد نورانی کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب آڈیو ٹیپ نے ملکی سیاست میں تلاطم پیدا کردیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ جب کسی سابق چیف جسٹس کی اس طرح کی کوئی آڈیو ٹیپ منظر عام پر آئی ہو تاہم سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود سے منسوب آڈیو ٹیپ کو جعلسازی کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ آڈیو میں آواز اُن کی نہیں جبکہ حکومتی وزراء بھی ثاقب نثار کی حمایت میں کھل کر سامنے آگئے ہیں اور مبینہ آڈیو ٹیپ کو جعلی اور جوڑ توڑ کی حامل قرار دے رہے ہیں جس کا مقصد اداروں کو بدنام کرنا ہے لیکن آڈیو ٹیپ لیک کرنے والے صحافی احمد نورانی کا دعویٰ ہے کہ ’’آڈیو ٹیپ مصدقہ ہے جس کے ساتھ فرانزک رپورٹ بھی منسلک ہے۔
ثاقب نثار اور حکومتی وزراء امریکہ یا یورپ کی عدالت میں مجھے چیلنج کریں تاکہ سچائی اور حقائق سامنے آسکیں۔‘‘
صحافی احمد نورانی نے آڈیو ریلیز کرنے سے پہلے امریکہ کی معروف فرانزک فرم گیریٹ ڈسکوری (Garrett Discovery) سےاس کی تصدیق کروائی تھی جس کیلئے 2100 امریکی ڈالر فیس کی ادائیگی بھی کی گئی۔
امریکہ کے شہر فلوریڈا میں قائم گیریٹ ڈسکوری کا شمار دنیا کی معروف فرانزک فرموں میں ہوتا ہے اور امریکی عدالتیں اس فرم کی رپورٹ کو اہمیت دیتی ہیں۔ مذکورہ فرم اپنے موقف پر قائم ہے کہ آڈیو میں کوئی ایڈیٹنگ یا کٹ پیسٹ نہیں جو آڈیو کے اصل ہونے کا ثبوت ہے۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ گیریٹ ڈسکوری نے دو ماہ تک جانچ پڑتال کے بعد آڈیو کو درست قرار دے کر رپورٹ جاری کی تھی مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ آڈیو کی تصدیق کرنے پر گیریٹ ڈسکوری کو دھمکی آمیز فون کالز موصول ہورہی ہیں جس میں سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
گیریٹ ڈسکوری کے سی ای او Mr. Garrett کا کہنا ہے کہ ہماری فرم تکنیکی کام کرتی ہے، پاکستان کی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، ہمیں بے شمار دھمکی آمیز فون کالز موصول ہورہی ہیں اور فرانزک رپورٹ کی تصدیق واپس لینے کیلئے دباؤ ڈالا جارہا ہے جو ہم کبھی نہیں کریں گے۔
اُن کے بقول آڈیو ٹیپ کے حوالے سے فرم کو اب تک 2 ہزار سے زائد تحقیقاتی انکوائریز موصول ہوچکی ہیں۔ دوسری طرف گزشتہ دنوں لاہور میں صحافی احمد نورانی کی اہلیہ اور بچوں کی کار پر دن دہاڑے حملہ کرکے گاڑی کی ونڈ اسکرین کو توڑا گیا اور فیملی کو ڈرایا دھمکایا گیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ لاہور جہاں ہزاروں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، اس واقعہ میں ملوث کسی فرد کی گرفتاری ابھی تک عمل میں نہیں آسکی۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر صلاح الدین احمد اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں سندھ سے ممبر حیدر امام رضوی نے ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو ٹیپ کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کردی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ثاقب نثار کی آڈیو ٹیپ سے عدلیہ کے وقار پر سوال اٹھا ہے اور عوام کا اعتماد مجروح ہوا ہے لہٰذا عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس معاملے پر تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جائے جس میں اچھی شہرت اور ساکھ رکھنے والے ریٹائرڈ ججز، وکلاء، صحافی اور سول سوسائٹی کے ممبران کو شامل کیا جائے تاکہ آڈیو ٹیپ کے مستند ہونے یا نہ ہونے کی تہہ تک پہنچا جاسکے۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے معاملے پر اٹارنی جنرل کو پری ایڈمیشن نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔
’’بابا رحمتے‘‘ کا خطاب پانے والے ثاقب نثار کو بطور چیف جسٹس اُن کی عدالتی سرگرمیوں سے زیادہ غیر عدالتی سرگرمیوں کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ ثاقب نثار کی آڈیو لیک ایک سنگین معاملہ ہے اور اُن کی زبانی تردید یا یہ کہہ دینے سے کہ وہ پاگل نہیں کہ وہ خود پر لگائے گئے الزامات پر امریکی یا یورپی عدالت سے رجوع کریں، مناسب نہیں کیونکہ اس آڈیو ٹیپ کا تعلق صرف سابق چیف جسٹس کی ذات سے نہیں بلکہ اُن کے منصب، 22 کروڑ عوام، اُن کے مینڈیٹ، حکومت کی ساکھ اور اداروں پر لگائے گئے الزامات سے ہے۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب آڈیو ٹیپ کی وجہ سے عدلیہ کی ساکھ پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے جس کی تحقیقات کی اشد ضرورت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اِن الزامات کی صداقت جلد از جلد تحقیقات کی جائیں اور ثاقب نثار اس معاملے پر اپنا دامن صاف کریں۔
سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر صلاح الدین احمد اور جوڈیشل کمیشن کے ممبر حیدر امام رضوی کی پٹیشن پر اگر جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں آتا ہے تو عدلیہ کا اوورآل کردار زیر بحث آئے گا اور ثاقب نثار جیسے عدلیہ کے مزید کئی کردار سامنے آئیں گے مگر اس کے نتیجے میں ایک ایسی آزاد عدلیہ کا قیام عمل میں آئے گا جو واٹس ایپ کے بجائے آزادانہ طور پر اپنے فیصلے کرے گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔