بلاگ
Time 05 دسمبر ، 2021

تم قتل کرو ہو کہ ’’کرامات‘‘ کرو ہو؟

لبیک یارسولؐ اللہ کے مقدس نعروں کی گونج میں مذہبی جوش میں آئے ایک جنونی لشکر کے ہاتھوں ایک سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا کا بہیمانہ قتل اور پھر اس کی لاش کا نذر آتش کیا جانا ’’حرمت رسولؐ پاک‘‘ کے لیے ’’نذرانہ‘‘ ہے یا اسوہ ٔرسالتؐ کی توہین؟ 

مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اب ایسے واقعات کوئی انہونی نہیں، تو پھر جانے کیوں ایسی معصومانہ یا پھر غفلت انگیز حیرانی کا اظہار کس منہ سے کیا جارہا ہے؟ سینکڑوں فرزندان توحید نے ثو اب دارین پانے کے لیے اس ہجوم کے انصاف میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

 خدا خدا کر کے ساری قوم خوابِ غفلت سے جیسے بلبلا کر جاگ اُٹھی اور تو اور تحریک لبیک پاکستان بھی اس کی مذمت پہ مجبور ہوگئی اور اس نے اس انسان سوز واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔ 

ذرا توقف کیجئے، معاملہ ٹھنڈا پڑتے ہی اعترافِ جرم کرنے والے فرحان ادریس کو کیسے غازی کے خطاب سے نوازا جاتا ہے اور اس کے مزار پہ حاضری دینے والوں کا کتنا بڑا مجمع لگتا ہے۔ یہ سب ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں اور آئندہ بھی یہ مناظر نظر آتے رہیں گے۔

 پہلے ختم نبوت پہ دہائیوں تک ایک سیاسی کھیل کھیلا جاتا رہا،  پھر توہین آمیز خاکوں نے مسلم دنیا اور خاص طور پر پاکستان میں ناموس رسالتؐ پہ مر مٹنے والوں کے جم غفیر کے آگے کوئی ٹھہر نہ سکا، بھلے نشانہ غضب اپنے ہی کلمہ گو بھائی اور املاک بنیں۔

 مذہبی توہین سے متعلق قوانین کا اجرا تو 1860 میں برطانوی راج میں ہوگیا تھا، بعدازاں 1980 اور 1986 کے دوران جنرل ضیا الحق کے دور میں ان میں متعدد تبدیلیاں کی گئیں اور توہین کے مقدمات جو 1986 تک صرف 14 تھے بڑھ کر 1500 سے زیادہ ہوگئے۔

 295-C کے تحت وفاقی شرعی عدالت نے توہین رسالتؐ میں عمر قید کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے صرف موت کی سزا برقرار رکھی جس کے بارے میں کوئی اپیل انجام کو نہ پہنچ سکی۔ گوکہ کوئی ایک مقدمہ ہنوز عدالت میں ثابت نہیں ہوسکا لیکن توہین مذہب کے الزام میں 100 سے زیادہ لوگوں کو سرعام مشتعل لوگوں نے اپنے تئیں جہنم واصل کردیا۔

 مسلکوں کی باہم مقابلے کی دوڑ میں اب اجماع یہی ہے کہ توہین کے الزام میں کسی کو کسی پر کوئی شک ہو تو ایسے شخص کو جہنم واصل کرنا ہر عاشق رسولؐ پہ فرض ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ توہین کے قانون کو ذاتی رنجشوں، فرقہ وارانہ عصبیتوں، کاروباری مفادات اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور توہین کے قانون کے توہین آمیز الزام پہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جاسکی اور اس کے بیجا استعمال میں کوئی قدغن لگائی جاسکی اور نہ کوئی اس کی اجازت دینے کو تیار ہے۔

پاکستان کو انتہا پسند مذہبی فرقہ واریت کا جہنم بنانے میں کوئی ایسا نہیں جو بری الذمہ ہو۔ ہر کسی نے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اس جواز کے ساتھ کہ پاکستان تو بنایا ہی گیا تھا اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر۔ 

نتیجتاً آج یہ تجربہ گاہ خوف نا ک فرقہ وارانہ اور عصبیت پسندانہ دھماکوں سے مسمار ہورہی ہے۔ نظریاتی ریاست کے گھر کو نظریاتی و فرقہ وارانہ عصبیتیں ہی جلانے پہ تلی بیٹھی ہیں۔ اور کون سا ادارہ اور کون سی جماعت نہیں جس نے اس خود کش کارِ تباہی میں اپنا اپنا حصہ نہیں ڈالا۔ جب سبھی شریکِ جرم ہیں تو پاکستان کی قومی ریاست اور انسانیت کے احترام کا استغاثہ کس عدالت میں دائر کیا جائے اور کسے مجرم ثابت کرنے کی استدعا کی جائے۔ 

خواہ نازی فسطائیت پسند ہوں، یا بنیاد پرست مذہبی فسطائیت پسند، ہندتواکے ہاتھوں مسلم کشی ہو یا مسلمانوں کے ہاتھوں دوسری مذہبی اقلیتوں کا قتل عام ہو سبھی فسطائیت کی مختلف صورتیں ہیں جن میں کوئی نہ کوئی مذہبی یا نسلی اقلیت مشقِ ستم بنتی ہے۔

 اس پرمستزاد یہ کہ ایک بین المذہبی اور بین النسلی و نسلی فساد دنیا بھر میں بپا ہے۔ اس کی بدتر صورت ہم جنوبی ایشیا میں دیکھتے ہیں۔ بھارت میں بابری مسجد کا انہدام کیا جاتا ہے تو پاکستان میں مندر گرائے اور گرجے جلائے جاتے ہیں۔

 بھارت میں مسلم مخالف قانون شہریت لایا جاتا ہے تو ہندتوا کو تو جلا ملتی ہی ہے، لیکن بنگلہ دیش میں اس کا انتہائی ردعمل ہوتا ہے،  بنگلا دیش میں مندر جلائے جاتے ہیں تو تریپورہ سے گڑگائوں تک مسلمانوں پہ آفت ٹوٹ پڑتی ہے۔ 

آٹھ مسلم شر پسندوں کے سری لنکا میں چرچوں پہ خود کش حملوں میں 267 عیسائی و دیگر لوگ مارے جاتے ہیں تو سنہالہ بدھ مت کے ماننے والوں کے انتہا پسند گروہ مسلمانوں پہ حملہ آور ہوجاتے ہیں اور راجہ پاکسے کی جماعت مسلم مخالف ایجنڈے کو کامیابی کے لیے استعمال کرتی ہے اور بودوبالیان جیسے فسطائی بدھ گروہ طاقت پکڑ لیتے ہیں۔ 

ابھی دیکھئے پریانتھا کمارا کے قتل کے خوفناک مناظر جن کی سیلفیاں بنا بنا کر شرپسندوں نے وائرل کیں، سری لنکا میں کیا آگ لگاتی ہیں اور پورے خطے کے عوام کس طرح فرقہ پرستوں اور نسل پرستوں کے فاشزم کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ نفرت انگیزی کی یہ آگ کسی ایک نسلی گروہ یا فرقے تک محدود نہیں، سبھی کو گھیر لیتی ہے اور عوامی نفسیات فسطائیت کا شکار ہوکر بڑے بڑے فسطائی جگادریوں کو میدان میں اتارتی ہے۔

ایک مذہبی بنیاد پر وجود میں آنے والی اسلامی مملکت میں معاشرت و ریاست کی تعمیر جب کٹر مذہبی بنیاد پر ہوگی اور مقابلہ اس پہ لگے گا کہ کون کتنا فتنہ گر ہے تو پھر خیر کی اُمید کس سے لگائی جائے۔

 آئین کا حلیہ بگاڑا گیا، قوانین کو خوفناک بنایا گیا، ریاست کی جہادی و شدت پسند نظریاتی کایا پلٹ کی گئی، تعلیم کو مذہبی تعلیم کے نام پر غیر عقلی و غیر سائنسی بنایا جاتا رہا اور معاشرے میں فرقہ وارانہ تفریق پڑھائی جاتی رہی کہ آمرانہ قوتیں اپنا کھیل کھیلتی رہیں تو ملک کے مستقبل کے بارے میں کوئی پر امید کیوں ہوگا۔ 

سری لنکن منیجر کے قتل، اس سے پہلے چینی کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کے واقعات اور آئے دن مذہبی جنونیوں کے مطالبات کے آگے ریاست کے ہتھیار پھینک دینے کے بعد اب مملکت خداداد اپنے ہی مذہبی شدت پسندوں کے رحم و کرم پر ہے لیکن مورد الزام ہیں تو ’’بلڈی لبرلز‘‘ یا روشن خیالی ترقی پسند!بچت کی راہ بچی ہے تو صرف یہ کہ ریاست و سیاست کو مذہب سے علیحدہ کردیا جائے اور دنیاوی تعلیم کو دینیات سے۔ یہی بانی پاکستان محمد علی جناح کی آخری منشا تھی اور یہی ایک قومی ریاست بننے کا تقاضا ہے۔

وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔