قائد اعظم کا پاکستان بمقابلہ نیا پاکستان

دسمبر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش کا مہینہ ہے، جنہوں نے دو قومی نظریہ کے تحت ہمیں ایک ایسا ملک دیا جہاں ہم سکون اور اپنے اسلامی طریقہ کار کے مطابق زندگی بسر کررہے ہیں، انہوں نےملک کے نظم و نسق کو چلانے کے تمام اصول بھی واضح کردئیے تھے،مگر پچھلے چند سالوں سے نئے پاکستان کا نعرہ لگاکر ملک میں جو کھیل رچا ئے جارہے ہیں ان سے قوم بے چین ہوچکی ہے۔ 

نئے پاکستان میں کابینہ کے حوالے سے جو بات کہی گئی تھی شاید وہ یہ بھول گئے کہ قائد اعظم نے گورنر جنرل کی حیثیت سے پاکستان کی جو پہلی وفاقی کابینہ تشکیل دی جو صرف 10 شخصیات پر مشتمل تھی حالانکہ مشرقی پاکستان بھی اس وقت پاکستان کا حصہ تھا۔ اس کابینہ میں لیاقت علی خان، آئی آئی چندریگر، غلام محمد، سردار عبدالرب نشتر، غضنفر علی خان،جوگندر ناتھ منڈل، سر ظفر اللہ خان، فضل الحق،خواجہ شہاب الدین اور پیرزادہ عبدالستار جیسے نیک نام اور اہل لیڈر شامل تھے۔ 

قائداعظم نے یہ کابینہ میرٹ اور صرف میرٹ پر تشکیل دی۔ کوئی دباؤ قبول کیا نہ ملکی خزانے پر بوجھ ڈالا کوئی اقربا پروری نہیں کی حالانکہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کا پورا استحقاق تھا کہ ان کو کابینہ میں شامل کیا جاتا۔، قائداعظم نے سیاست کو سرمائے سے الگ رکھا سیاست کو خدمت اور عبادت سمجھا۔ انہوں نے قومی خزانے کو عوام کی امانت سمجھ کر خرچ کیا، رات کو سونے سے پہلے گورنر جنرل ہاؤس کی فالتو بتیاں بجھا دیتے۔

 14اپریل 1948کو پشاورمیں سول افسروں سے خطاب کرتے ہوئے بانی پاکستان نے کہا کہ آپ کسی سیاستدان یا سیاسی جماعت کے دبائو میں نہ آ ئیں،آپ کی کسی سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی نہیں ہونی چاہیے۔ آپ صرف قومی ملازم ہیں۔ ملک کی خدمت ایک خادم کی حیثیت سےکرنی چا ہیے۔

موجودہ پاکستان میں مقتدر اشرافیہ نے لوٹ مار کر کے بیرون ملک اپنی جائیدادیں بنا رکھی ہیں جبکہ قائد اعظم نے اپنی محنت کی کمائی کے ساتھ بنائی جائیدادیں اور اثاثے فلاحی اور تعلیمی اداروں کو وقف کر دیے،آج کے پاکستان کو جس نظام کے تحت چلایا جا رہا ہے وہ قائد اعظم کے تصورات کی مکمل نفی ہے، موجودہ حکومت نے جس نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر حکومت سنبھالی اس کا خمیازہ اب پوری قوم بھگت رہی ہے، نئے پاکستان میں عوام سے ان کا روزگار چھن گیا، معاشی طور پر ملک تباہی کے دہانے پر ہے۔

 مہنگائی اور گرانی نے عوام کو خود کشی پر مجبور کردیا، شہر قائد کراچی میں بے روز گار نوجوان خود کشیاں کررہے ہیں، چوری ڈکیتی بڑھ رہی ہے، خواتین کی عزتیں تک محفوظ نہیں، تعلیم کا شعبہ ہو یا صحت کا ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہے، جو وزیر اعظم حکومت میں آنے سے پہلے ڈالرز اور پیٹرول میں اضافے پر ’’وزیراعظم چور‘‘ کے نعرے لگاتا تھا اس کے اپنے دور حکومت میں ڈالر اونچی اڑان پر ہے، پیٹرول روز مہنگا ہورہا ہے۔

ملک کے معاشی حب کراچی میں سی این جی اسٹیشن ڈھائی ماہ کے لئے بند کردئیے گئے، کورونا کی وجہ سے لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہوگئے، موجودہ حکمرانوں نے قائد اعظم کے پاکستان کے ساتھ نئے پاکستان کی آڑ میں جو کھیل کھیلا ہے وہ حد درجہ افسوس ناک ہے،کرپشن کے روز نت نئے اسکینڈل سامنے آ رہے ہیں مگر اپنے لوگوں کو بچایا جارہا ہے، نیب کو احتساب کے بجائے انتقام کا ادارہ بنادیا گیا،اس وقت وطن عز یز پاکستان کے حالات بڑے تشویش ناک ہوتے جا رہے،موجودہ حکومت اپوزیشن پر کرپشن کے الزامات کی آڑ میں اپنی نا اہلی چھپانے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔

ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال کے تناظر میں آنے والے حالات ملک کے لئے بہت زیادہ پریشان کن دکھائی دے رہے ہیں، اس میں ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو آنے والے چیلنجوں اور خطرات کا مقابلہ کر سکے جس کی موجودہ حکومت میں اہلیت نظر نہیں آتی۔ ہمیں وہ پاکستان چاہیے جہاں اقربا پروری، رشوت خوری، بدعنوانی، ذخیرہ اندوزی اور لاقانونیت کا نام و نشان نہ ہو۔ ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔ 

امیر اور غریب کے لئے ایک ہی قانون ہو، تعلیم یکساں ہو۔ کوئی وی آئی پی پروٹوکول، جلسے جلوسوں کی وجہ سے پریشانی کا شکار نہ ہو۔ سب کو اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے ہر کام کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ہو۔ 

عدالتی نظام آسان اور تیز تر ہو۔قائداعظم کے افکار پر عمل کرتے ہوئے ہی ہم ایک اسلامی فلاحی ریاست کی طرف گامزن ہوسکتے ہیں۔اس وقت پوری قوم اس بات پر متفق ہے کہ ہمیں کوئی نیا پاکستان نہیں قائد اعظم کا پاکستان ہی عزیز ہے وہی ہماری ریاست اور ٹھکانہ ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان ہے کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا، یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔