قوم یا ہجوم

یوں لگتا ہے جیسے ہمارے معاشرے میں انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے،حیوانیت انسانیت پر حاوی ہو رہی ہے،عدم برداشت کا جذبہ برداشت کی طاقت پر غالب آ چکا ہے،دلیل کی جگہ گالی نے لے لی ہے،تحمل کو بزدلی،برداشت کو بے غیرتی کہا جانے لگا ہے۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو عام آدمی کیلئے زحمت کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔محبت اور نفرت کے معیار بدل رہے ہیں۔

نعروں کا محل اور مفہوم بدل گیا ہے۔جو نعرے اپنے ایمان کی پہچان کیلئے لگائے جاتے تھے اب بےگناہ لوگوں کی جان لینے کیلئے بلند کیے جاتے ہیں۔جس صورتحال سے ہم دوچار ہیں سینکڑوں سال پہلے یورپ بھی اسی صورت حال سے گزرا تھا۔وہاں کے مذہبی طبقات اور حکومت کے مابین اختیار اور اقتدار کی جنگ جاری رہی۔

اس جنگ میں کبھی بادشاہت غالب رہی تو کبھی چرچ۔پھر عوام نے اس باہمی آویزش سے تنگ آ کر جمہوریت کا راستہ اختیار کیا،اب وہاں بادشاہت بے اختیار اور مذہب بے اثر ہے۔وہاں کے چرچ قابل فروخت اور مذہب کا عمل داخل واجبی سا رہ گیا ہے۔

اگر یہی حالات رہے تو میں پاکستان کی دہلیز پر ایک ایسے ہی انقلاب کی دستک سن رہا ہوں۔یہ انقلاب نہ مذہب کی سنے گا اور نہ معاشرتی اقدار کی پروا کرے گا۔مذہب بیزاری کے اس انقلاب سے مساجد،مدارس اور آستانوں کو جو خطرات لاحق ہوں گے (خاکم بدہن)انکا تصور ہی لرزا دینے کیلئے کافی ہے۔انتہا پسندی،جہالت کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے سانحہ سیالکوٹ نے انسانیت کو شرمندہ کردیا ہے۔تاہم یہ پہلا واقعہ نہیں۔

اس سے قبل ستمبر 2010 ءمیں سیالکوٹ میں ہی دوحافظ قرآن بھائیوں حافظ مغیث اور حافظ منیب کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاشوں کی سڑکوں پر بے حرمتی کی گئی تھی۔لوگ گرفتار ہوئے۔

گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزمان کو سزائے موت دی اور کچھ کو دس سال قید بامشقت۔لاہور ہائی کورٹ نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا اور جسٹس کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے عمر قید کو 10 سال میں تبدیل کردیا۔

اتفاق یہ ہے کہ 2010 میں ہی سری لنکن شہری پریانتھا کمارا سیالکوٹ آیا۔کسے پتا تھا کہ جس مقتل میں دو حافظِ قرآن قتل ہوئے وہی شہر اس کی قتل گاہ بھی بنے گا۔پھر کوٹ رادھا کشن میں مزدوروں کو جلتے ہوئے بھٹے میں جلا دیا گیا اور انسانیت سسکتی رہی،درندگی کا یہ رویہ صرف جہلا میں نہیں بلکہ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ افراد بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اور مشال خان کو یونیورسٹی کے طلبہ نے اجتماعی طور پر قتل کردیا۔

ملزمان اس شان سے رہا ہوئے کہ ایک سیاسی جماعت نے ہزاروں لوگوں کے ہمراہ انکا استقبال کیا۔یہ محض تین مثالیں ہیں۔اب تک 100سے زائد بے گناہ افراد اس اجتماعی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

سانحہ سیالکوٹ نے ہر دل دکھی کردیا ہے پوری قوم شدید صدمے کے عالم میں ہے۔ایک انسان میں اتنی وحشت کیسے آ سکتی ہے کہ ایک بے گناہ شخص کی چیخیں اسکے دل کو نرم نہ کر سکیں۔

کوئی ہجوم اتنا بے رحم کیسے ہو سکتا ہے کہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے بے بس شخص کو جلا کر کوئلہ کردے۔ سفاکیت، بربریت اور وحشت جیسے استعارے کم لگنے لگے ہیں۔میں اپنے ہم جماعت سری لنکن دوستوں کو تعزیتی فون نہیں کر سکا کہ ان سے کیسے اظہار افسوس کروں؟اس شرمندگی سے دوچار کرنے میں ہماری سیاسی جماعتوں کا بھی بنیادی کردار ہے۔

ان جماعتوں کے لیڈران نے ذاتی تشہیر کیلئے پورے بریگیڈ تیار کردیے ہیں۔ٹویٹر پر خاتون اول،اور مسلم لیگی خاتون رہنما کے خلاف بیہودہ ٹرینڈ چلائے گئے لیکن قائدین نے انکی تربیت کے بجائے انکی پیٹھ ٹھونکی۔

یہ سب جماعتیں مختلف اوقات میں اقتدار پر فائز رہ چکی ہیں لیکن کسی جماعت نے بھی عوام کو نیوٹرل کرنے کے لیے تربیت کا اہتمام نہیں کیا اور اسکی ذمہ داری ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف پر ڈال دی جاتی ہے کہ ان ڈکٹیٹروں نے موقع نہیں دیا۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا اخلاقی تربیت کے لیے بھی اقتدار کی ضرورت ہوتی ہے؟ اپنے ہمسایہ ملک پر نظر دوڑائیں،وہاں کے حکمرانوں نے اپنے لوگوں کی ایسی تربیت کی ہے کہ آج مائیکروسافٹ، گوگل، ٹوئٹر اور اس جیسی تمام صنعتوں پر بھارتی شہری براجمان ہیں

ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی تمام اہم پوزیشنوں پر بھارتی شہری بیٹھے ہیں، کیا ہماری قسمت میں گڑھی خدا بخش کی مجاوری، رائیونڈ کی غلامی اور بنی گالہ کے نظارے رہ گئے ہیں؟ ان سب سیاسی جماعتوں کی غفلت کی وجہ سے آج یہ حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ کوئی سرمایہ کار پاکستان آنے کیلئے تیار نہیں کوئی صنعت کار پاکستان میں صنعت لگانے پر آمادہ نہیں،سانحہ سیالکوٹ نے تو گویا پاکستان کے سارے راستے بند کر دیے ہیں۔

اس سانحہ نے بیرون ملک 90 لاکھ تارکین وطن کی آنکھیں جھکا دی ہیں،حکمران جواب دیں کہ نوے لاکھ تارکینِ وطن وہاں پر لوگوں کے سوالوں کے جواب کیسے دیں گے؟ خدا کیلئے خواب غفلت سے جاگیں،اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں، مذہبی جماعتیں اسلام کا صحیح رخ اپنے لوگوں کے سامنے پیش کریں، سیاسی جماعتیں کارکنان کی تربیت کیلئے تھنک ٹینک بنائیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔