09 دسمبر ، 2021
افغانستان ایک طویل اور خطرناک طوفانی دور سے گزرا ہے، آج بھی معاشی بحران کے باعث جس مقام پر کھڑا ہے اگر عالمی برادری نے اس کا ادراک نہ کیا تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، اس وقت افغانستان کی صورت حال معاشی اعتبار سے انتہائی خستہ ہے۔
لوگ بھوک اور افلاس سے موت کے منہ تک پہنچ چکے ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 80 لاکھ افراد دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں، معاشی طور پر تباہ حال افغانستان کی کوکھ میں پچاس لاکھ یتیم اور لاوارث بچے ہیں۔
آپ افغانستان کے کسی شہر میں نکل جائیے کوئی عمارت، کوئی پارک اور کوئی بھی تاریخی مقام بے رحم گوروں اور گولیوں سے بچا ہوا نہیں ہے، جس ملک کا چپہ چپہ مائنوں سے اٹا پڑا ہو، اس جنگ زدہ ملک میں بیسیوں اموات ایسے امراض سے ہوتی ہیں جن کا علاج نہایت سستا ہوتا ہے لیکن ان کو سر درد کی معمولی گولی تک میسر نہیں۔ عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے ہر چار بچوں میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مرجاتا ہے۔
افغانستان میں لاچارگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ پچھلے سال موسمِ سرما کی ایک سرد برفانی رات میں طوفانی ہوائیں چلیں، سردی سے ٹھٹھر کر مرنے والوں کو شمار کیاگیا تو ایک سو پچاس افغانوں کی لاشیں ملیں۔ افغانستان کے دیہات میں 36 فیصد افراد کو کھانے کی اشیاء تک دستیاب نہیں۔
اسکول کی عمر تک پہنچ کر بھی اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 50 فیصد ہے۔ اگر غربت کا مجموعی تناسب دیکھا جائے تو ہر دو افغانوں میں سے ایک سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اس تباہ حال ملک کے ہر تین باشندوں میں سے ایک پناہ گزین ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق 95 فیصد افغانی ذہنی طور پر جنگ سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ ہر پانچواں افغانی ذہنی امراض کا شکار ہوچکا ہے۔
محروم اور لاچار افغانوں کے ہر گلی اور محلے میں غربت جنم لے رہی ہے اور انسانیت سسک رہی ہے، عالمی امن کے علمبرداروں کو نجانے کب فرصت ملے گی کہ اس محرومی کی دلدل میں دھنسے افغانوں کی مدد کو پہنچیں، جس نے بھی افغانستان کا دورہ کیا وہ افغان عوام کی خستہ حالی پر افسوس اور دکھ کا اظہار کرتا ہوا ہی لوٹا۔
1998ء میں مجھے افغانستان جانے کا اتفاق ہوا تو اس وقت ہم نے افغان عوام کی غربت و افلاس کے دل خراش مناظر اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھے تھے، افغانستان میں داخل ہونے کے بعد غربت وافلاس، ویرانی ووحشت اور خانہ جنگی کے مظاہر قدم قدم پر استقبال کرتے ہیں، کابل کے لیے سوار ہوتے وقت میری نظر ایک کمسن بچے پر پڑی۔
بچہ مٹی میں لتھڑا ہوا، کپڑوں پر کیچڑ اور سرخ گلاب جیسا چہرہ مٹی میں اٹا ہوا اور ناک بہہ رہی تھی، اس نے ہماری گاڑی کے شیشے پر میلے کچیلے ہاتھ مارتے ہوئے اپنی طرف متوجہ کیا اور پھر دونوں ہاتھ جوڑ کر روٹی کا سوال کیا، مجھ سے وہ منظر دیکھا نہ گیا، میں نے فوراً ہی اپنے بیگ سے ڈبل روٹی نکال کر اس کی طرف بڑھادی اور ساتھ ہی چند افغانی روپے بھی دیدیے، ایک بوڑھا شخص جس کے ساتھ دو مفلوک الحال بچیاں بھی تھیں۔ کہنے لگا: ’’دو دن سے کچھ نہیں کھایا، ہمارے گھر میں بھی بیماری ہے۔‘‘
ایک ہوٹل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’روٹی تو دلوادیں۔‘‘ میں کھانا لینے کے لیے ہوٹل کی طرف بڑھا تو دو خواتین نے دستِ سوال پھیلاتے ہوئے کہا: ’’کھانا تو دلوادو۔‘‘ میں نے حسبِ استطاعت دونوں گروہوں کو کھانا لے دیا۔ کابل تک بائی روڈ سفر کرتے ہوئے ایسے بچے بچیاں اور درجنوں مردوخواتین نظر آئے جن کے مسکنت زدہ چہروں پر استعماری قوتوں کے لیے شکوے نمایاں تھے۔
سرمایہ دار، امیرترین اور طاقتور ممالک کی ستم ظریفی تو ملاحظہ کیجیے! ایک طرف انسانوں کا خون پینے والے اور مہلک ہتھیار بنانے پر اربوں کھربوں صرف کررہے ہیں تو دوسری طرف پوری دنیا میں ایک ارب سے زائد لوگوں کو دو وقت کی روٹی بمشکل میسر ہے۔
ان میں سے 80 کروڑ انسانوں کو بھوکا سونا پڑتا ہے اور ان میں سالانہ 25 ہزار افراد خوراک کی شدید کمی کی وجہ سے مرجاتے ہیں، عالمی طاقتوں کا سار ازور اس پر ہے کہ ان کی فوجی طاقت میں کمی نہ آئے اور آمدن بڑھتی ہی چلی جائے۔ وہ غریبوں کی حالت زار پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔
دنیا اسلحے کی تیاری پر جتنی رقم خرچ کرتی ہے اس کے صرف ایک فیصد سے وہ تمام بچے اسکول جاسکتے ہیں جنہیں غربت کے باعث تعلیم کی سہولت میسر نہیں، دنیا میں بچوں کی تعداد تقریباً دو ارب بیس کروڑ ہے۔ ان میں سے ایک ارب بچے غربت کی آغوش میں پل رہے ہیں، پوری دنیا میں روزانہ ہر 3.6 سیکنڈ بعد کوئی نہ کوئی انسان بھوک کی وجہ سے مرتاہے۔
ترقی یافتہ ممالک فخریہ اعلان کرتے ہیں ہم ہر سال غریب ممالک کو اتنے کروڑوں ڈالر کی امداد دیتے ہیں، وہ دعوے ضرور کرتے ہیں، مگر عملی اقدام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ امریکا اور یورپ کے باسی ہر سال شراب پینے اور سگریٹ سلگانے پر 500 ارب ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں۔
اس میں سے اگر ہر سال 200 ارب ڈالر مل جائیں تو دنیا سے غربت، بھوک، جہالت، پانی کی کمی اور بیماریوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں امن قائم کرنے اور مبینہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اربوں کھربوں خرچ کرتے ہیں، لیکن انہیں تیسری دنیا کے ان کروڑوں غریبوں کاخیال نہیں آتا جو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ امیر کبیر ممالک کس منہ سے خود کو’’ انسانی حقوق کا علمبردار ‘‘کہتے ہیں؟ اب چونکہ افغانستان میں انسانی بحران کا خدشہ ہے ،اس لئے عالمی برادری اور اداروں کو چاہئے کہ وہ خستہ حال افغانستان کی مددانسانی ہمدردی کے ناطے ضرور کریں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔