Time 13 دسمبر ، 2021
پاکستان

سابق چیف جج جی بی رانا شمیم عدالت میں پیش، بیان حلفی بھی پڑھ کر سنایا گیا

سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہو گئے جبکہ اٹارنی جنرل نے ان کی جانب سے بھیجا گیا بیان حلفی بھی پڑھ کر سنایا۔

گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔

کیس کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس اطہر من اللہ سماعت نے استفسار کیا کہ رانا شمیم خود کہاں ہیں؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ رانا شمیم کو اصل بیان حلفی جمع کرانے کا ایک اور موقع دیا گیا تھا، پتہ نہیں وہ آج اصل بیان حلفی جمع کرا رہے ہیں یا نہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ایک درخواست آئی ہے، کیا وہ آپ نے دیکھی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہوں نے لکھا ہے 9 دسمبر کو نواسے نے اصل بیان حلفی کورئیر کے ذریعے بھجوایا ہے، ڈاکیومنٹ بھجوانے میں 3 دن لگنے چاہئیں۔

صحافی انصار عباسی کا عدالت میں بیان

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا صحافی انصار عباسی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا آپ کو بہت پہلے سے جانتا ہوں، آپ کی ساکھ ہے لیکن اس معاملے کو بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں دیکھیں گے۔

انصار عباسی کا عدالت میں کہنا تھا کہ اس عدالت کے لیے کافی احترام ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں اور آپ اہم نہیں، یہاں کے عوام اور سائلین زیادہ اہم ہیں، اس کیس میں عوام سے عدالت کا اعتماد اٹھانے کی کوشش کی گئی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ رانا شمیم اور انصار عباسی کے مؤقف میں فرق ہے، ہم چاہتے ہیں اس معاملے پر سوالات کریں، رانا شمیم کو بیان حلفی اور انصار عباسی و دیگر کو جوابی بیان حلفی جمع کرانے کا کہا جائے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے انصار عباسی سے کہا کہ عدالت آپ سے بیان حلفی حاصل کرنے کا سورس نہیں پوچھے گی۔

انصار عباسی نے کہا کہ رانا شمیم کے بیان حلفی میں جو کچھ کہا گیا وہ انہیں کوٹ کرکے کہا، اسٹوری میں لکھا کہ یہ رانا شمیم کا دعویٰ ہے۔

عدالت کا سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے سے مکالمہ 

سیکرٹری جنرل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) ناصر زیدی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ بیان حلفی دینے والا اس کی تصدیق کر رہا ہے تو وہ شائع ہونا چاہیے، انصار عباسی بہترین صحافی ہیں، حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرتے ہیں۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ اگر وہ ڈاکیومنٹ خفیہ ہو تو کیا پھر بھی وہ بیان حلفی شائع ہونا چاہیے؟ جو ہیڈ لائن شائع ہوئی اس پر غور کریں، زیر التوا اپیلوں پر اس طرح رپورٹنگ نہیں ہو سکتی، پریولیج ڈاکیومنٹ لیک ہونے پر نوٹری پبلک کے خلاف انکوائری ہو سکتی ہے۔

سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے نے کہا کہ تاریخ بہت تلخ ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہاں پر کوئی سیاسی تقریر نہیں سنوں گا، آپ انٹرنیشنل اصول بتائیے گا، لوگوں کو اعتماد نہ ہو تو ہم بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے کیس نہیں کر سکتے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عدالت ایسا تاثر نہیں دینا چاہتی جو بیان حلفی کی خبر میں دیا گیا، کورٹ کے سامنے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کا معاملہ چل رہا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا رانا شمیم اپنے جواب میں کہتے ہیں کہ بیان حلفی نوٹری پبلک سے لیک ہوا ہو گا، یہ اس اسلام آباد ہائیکورٹ کی بات ہے جہاں بہت سے حساس کیسز زیر سماعت ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس عدالت پر لوگوں کا اعتماد ختم کرنے کا سوال ہو تو عدالت برداشت نہیں کرےگی، بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دیکر بتائیں خبر ٹھیک شائع کی گئی؟ ادارے میں ایڈیٹر اور چیف ایڈیٹر اسی لیے ہوتا ہے کہ اسے چیزوں کو دیکھنا ہوتا ہے، آج کے دور میں سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ بن رہا ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ کا ناصر زیدی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا یہ مجھے نہ بتائیے گا کہ کیا کیا ہوتا رہا ہے؟ آپ سے پہلے سارے مسنگ پرسنز کے کیسز تھے، اگر کورٹ کے بارے میں بداعتمادی پھیلا دی تو کیا ہوگا؟ میں اور میری کورٹ کے جج احتساب کے لیے تیار ہیں۔

اٹارنی جنرل نے رانا شمیم کا بیان حلفی پڑھ کر سنایا

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت میں شوکاز پر رانا شمیم کا تحریری جواب پڑھ کر سنایا جس میں لکھا گیا ہے کہ عدلیہ کی توہین مقصود ہوتی تو بیان حلفی پاکستان میں ریکارڈ کرا کے میڈیا کو دیتا۔

وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہو گئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کے نوٹس ملنے والے اپنے بیان حلفی جمع کرا دیں، اس دوران رانا شمیم کا اصل بیان حلفی بھی آ جائے گا، اس کے بعد فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کی جائے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اٹارنی جنرل کی  استدعا منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

مزید خبریں :