بلاگ
Time 16 دسمبر ، 2021

پاکستان کا نائن الیون اور سقوط ڈھاکہ

16 دسمبر کی اہمیت ہم پاکستانیوں کیلئے دو حوالوں سے ہے، ایک تو یہ کہ اس روز یہ ملک محض 24 برس کی قلیل مدت میں ٹوٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔

 دوسرا ہماری مذہبی شدت پسندی و تنگ نظری پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے پشاور میں ہمارے معصوم بچوں کے ساتھ دہشت گردی کا وہ دردناک سانحہ پیش آیا جسے یاد کرتے ہوئے آج بھی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور جسے بجا طور پر پاکستان کا نائن الیون قرار دیا جا سکتا ہے۔

کون سنگ دل ہے جو ان ماؤں کے درد کو محسوس نہیں کر سکتا جنہوں نے اپنے ان پھولوں جیسے نونہالوں کو ناشتہ کرواتے، اسکول یونیفارم پہناتے، کتابوں سے بھرے بستے تھماتے، محبت و شفقت سے مسکراتے سہانے خواب آنکھوں میں بساتے حصول تعلیم کیلئے اسکول بھیجا اور پھر اسی دوپہر انہی بچوں کی آگ اور خون میں لتھڑی جلی کٹی لاشیں ان دکھیاری ماؤں کے ہاتھوں میں تھما دی گئیں۔

 یہ کہتے ہوئے کہ تمہارے بچے مقام شہادت پر فائزہو گئے ہیں، اس پر فخر کریں، بلند رتبے کے حصول پر جشن منائیں، ترانے گائے جاتے ہیں کہ ہم نے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے، بدنصیب مائیں آہ و زاری کرتی ہیں، روتے چلاتے پوچھتی ہیں کہ ہم نے تو اپنے بچوں کو کسی میدانِ جنگ میں نہیں بھیجا تھا؟

 ہمیں یہ شہادتیں یہ رتبے نہیں چاہئیں ہم نے تو اپنے ان پھولوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے تابناک مستقبل بنانے کے لئےا سکول بھیجا تھا، ہماری تو کسی سے کوئی دشمنی نہ تھی، پھر ہمارے اوپر یہ قیامت کیوں ڈھائی گئی؟رہ گئے وہ بے چہرہ دہشت گرد جنہوں نے اس قدر محفوظ علاقے میں ا سکول میں گھس کر بے دردی سے ان پھولوں کو مسلا، ان سے پوچھا جاتا ہےکہ تم لوگ دعوے تو دین کی علمبرداری کے کرتے ہو، بےگناہ بچوں کو یوں بے دردی سے گولیاں مارتےتمہیں ذرا لاج نہ آئی ذرا رحم نہ آیا تو اس طالبانی لیڈر نےجو جوابی استدلال پیش کیا، وہ پوری دنیا کے میڈیا میں پڑھا اور سنا گیا۔

 افسوس اس مادرِ وطن میں آزادی اظہار کا یہ عالم ہے کہ درویش ان طالبانی دہشت گردوں کا وضاحتی جواب بلا کم و کاست بیان کر سکتاہے مگر یہ چھپ نہیں سکتا اور نہ ہی اس پر یہاں تنقیدی جائزہ پیش کیا جا سکتا ہے۔

اب 16 دسمبر کی تلخ یادوں بھرے دوسرے ایشو پر آتےہیں درویش نے مشرقی کمان کے ہیرو کو جب اس کے منہ پر کہا کہ کیا آپ ہی وہ جنرل نیازی ہیں جس نے اس ملک کے عوام ہی نہیں ان کے دو قومی نظریہ کے منہ پر بھی کالک مل دی تو اُس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ہم آج کس کو دوش دیں؟ تحریک پاکستان تو اٹھی ہی بنگال سے تھی، 1906 میں ڈھاکہ میں مسلم لیگ تو بنائی ہی بنگالیوں نےتھی، جب جناح صاحب کانگریس کا حصہ تھے اور ہندو مسلم ایکتا کے گیت گا رہے تھے۔

 1947کی پارٹیشن سے قبل حسین شہید سہروردی پورے متحدہ بنگال کے منتخب وزیراعظم تھے۔ شیخ مجیب الرحمٰن بائیسکل پر گلی گلی، قریہ قریہ مسلم لیگ اور پاکستان کے نعرے لگاتے گھوم رہے تھے۔ یہ وہی شیخ مجیب الرحمٰن تھے جو بعد میں بھی جناح صاحب کی بہن کے صدارتی الیکشن میں، بڑے بڑے جلسوں میں پیش پیش تھے لیکن ان دونوں سیاسی رہنماؤں کے ساتھ مغربی پاکستان کی نام نہاد قیادت نےکیا ’’حسن سلوک‘‘ کیا؟وزیراعظم سہروردی کی اس ملک میں کس قدر تذلیل کی گئی۔

 لیاقت علی خان سے لے کر لٹھ بردار تک کے بیانات ملاحظہ فرمائیں جو آج بھی اُس دور کے اخبارات میں موجود ہیں کرپشن اور لوٹ مار کے گھٹیا اور جھوٹے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں جیل کی کالی کوٹھڑیوں میں بند رکھا گیا۔ کس نے کہا تھا کہ ’’میں سہروردی کے قبر میں پہنچنے تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ یہ کیسی جمہوریت تھی تین سو کے ایوان میں ایک سو اکسٹھ سیٹوں کی کلیئر میجارٹی لینےوالے کو تو جیل بھیجا جا رہا تھا اور محض اکیاسی ممبران رکھنے والے کو وزارت عظمیٰ کے سنگھاسن پر بٹھائے جانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں، کیا اس پر مظلوم بنگالی عوام کا احتجاج نہیں بنتا تھا؟ جمہوریت کی تاریخ میں یہ پہلی مثال ہے کہ میجارٹی، مینارٹی کے استبداد سے، جیتنے کے باوجود، آزادی کی جنگ لڑ رہی تھی۔

یہاں آزادی اظہار کا یہ عالم ہے کہ درویش نےدو دہائیاں قبل ایک آرٹیکل تحریر کیامگر وہ چھپ نہیں سکتا۔وہ بنگالی قوم جسے یہاں بھوکا ننگا کہہ کر ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا، آج کسی بھی شعبۂ زندگی میں ذرا ان سے اپنا تقابل کر کے دیکھیے ۔ یہ تمام تر فیضان آزادی کاہی ہے، اس لیے اب ’’سقوطِ ڈھاکہ‘‘ کے ٹسوے بہانا بندکریں اور اپنےبنگلہ دیشی بھائیوں کو ان کے پچاسویں یوم آزادی کی مبارکباد پیش کریں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔