22 دسمبر ، 2021
پہلی حقیقت : سٹی مئیر یا تحصیل چیئرمین کے براہ راست پاپولر ووٹ سے انتخاب کا نظام پی ٹی آئی کانہیں بلکہ جماعت اسلامی کا کارنامہ ہے۔ پرویز خٹک حکومت میں بلدیات کی وزارت جماعت اسلامی کے عنایت اللہ خان کے پاس تھی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ یہ نظام بنیادی طور پر ان کا بنایا ہوا تھا۔
بجائے اس کے کہ اسے مزید بہتر بنایاجاتا، پی ٹی آئی نے اس نظام میں تبدیلی کرکے اس سے ضلعی حکومت کو نکال دیا ۔ اب ایک مسئلہ یہ درپیش ہوگا کہ پولیس اور انتظامیہ کے سربراہ براہ راست صوبائی حکومت کے ماتحت ہوں گے۔ دوسری طرف اگر پرونشل فنانس کمیشن ایوارڈ ہوتا ہے تو اس میں وسائل ضلعوں کی بنیاد پر تقسیم ہوں گے لیکن یہاں ضلع کی سطح پر نظام ہی نہیں رکھا گیا۔
دوسری حقیقت: یہ انتخابات صوبے کے صرف 17اضلاع میں منعقد ہورہے تھے نہ کہ پورے صوبے میں۔ زیادہ تر ان اضلاع میں انتخابات ہوئے جو پی ٹی آئی کے گڑھ سمجھے جاتے تھے۔ پشاور ویلی جس میں پشاور کے ساتھ ساتھ مردان، نوشہرہ، چارسدہ اور صوابی شامل ہیں، پی ٹی آئی کا اصل گڑھ ہے۔
جب یہاں پر اس کا یہ حشر ہوا ہے تو دوسرے مرحلے میں حشر اس سے کئی گنا برا ہوگا۔ کیونکہ دوسرے مرحلے میں ہزارہ ڈویژن کے مانسہرہ اور ایبٹ آباد وغیرہ شامل ہوں گے جو بنیادی طور پر مسلم لیگ(ن) کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح ملاکنڈ ڈویژن کے دیر اور سوات کے اضلاع ہوں گے جہاں سے گزشتہ الیکشن نما سلیکشن میں بھی جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) نے سیٹیں نکال لی تھیں۔
اسی طرح اگلے مرحلے میں شمالی اور جنوبی وزیرستان ہوں گے جو تاریخی طور پر جے یو آئی کے گڑھ ہیں یا اب وہاں پی ٹی ایم کا غلغلہ ہے۔ یوں دوسرے مرحلے میں اگر واقعی انتخابات ہوئے تو پی ٹی آئی کا حشر اس سے بھی برا ہوگا۔
تیسری حقیقت: صوبہ چلانا تو درکنار پی ٹی آئی کی حکومت صرف امن و امان کو بھی بحال نہیں رکھ سکتی۔ اب پورے صوبے نہیں بلکہ سترہ اضلاع میں انتخابات منعقد ہورہے تھے۔ دیگر اضلاع سے پولیس اور دیگر اہلکار بھی انتخابی ضلعوں میں بلائے گئے تھے اور خفیہ ایجنسیوں کی ساری توجہ بھی ان علاقوں پر مرکوز تھی لیکن اس کے باوجود یہ خونریز انتخابات ثابت ہوئے۔
ڈی آئی خان میں اے این پی کے تحصیل مئیر کے امیدوار قتل کئے گئے اور ان کے بیٹے حکومتی پارٹی کے وزرا کی طرف انگلی اٹھا رہے ہیں۔ بنوں سے متصل بکا خیل میں ایک صوبائی وزیر کے غنڈوں نے ایک رات قبل پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کیا جس کی وجہ سے وہاں انتخابات ملتوی کرنے پڑے۔ اسی طرح باجوڑ میں دھماکے کے نتیجے میں اے این پی کے دو افراد قتل ہوئے۔ کرک میں خود پی ٹی آئی ایم این اے شاہد خٹک کے عزیز قتل ہوئے۔ حتیٰ کہ پشاور شہر کے گورگٹھری پولنگ اسٹیشن میں بھی الیکشن سے ایک رات قبل ٹھپے لگانے والوں کو پولیس کی بجائے اپوزیشن امیدواروں نے آکر روکا۔
چوتھی حقیقت: خیبرپختونخوا کی حکومت اور پی ٹی آئی کی قیادت اتنی نااہل اور نکمی ہے کہ اگر 2018میں مدد کرنے والی طاقتیں ساتھ نہ ہوں تو یہ قانون اور ضابطے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے، سرکاری وسائل کے بھرپور استعمال کے باوجود، دھاندلی کے ذریعے بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔ان انتخابات میں خود عمران خان نے بھی قانون شکنی کی۔
الیکشن کمیشن نے تحریری طور پر متنبہ کیا تھا کہ وہ صحت کارڈ تقسیم کرنے نہ جائیں لیکن پھر بھی پشاور گئے۔ ا سپیکر اسد قیصر کی مداخلت اور فنڈز کی تقسیم کے آڈیو ثبوت بھی آئے لیکن ان کے خلاف ایک نوٹس کے سوا کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کو الیکشن کمیشن نے جرمانہ بھی کیا۔ تمام وفاقی وزرا نے وہاں ڈیرے ڈالے تھے۔ تمام صوبے کے وزرا کو بھی الیکشن والے حلقوں میں تعینات کیا گیا تھا۔کئی وزرا کو الیکشن کمیشن کی طرف سے قواعد کی خلاف ورزی پر نوٹسز بھی ملے لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہورہا تھا۔
پورے صوبے سے من پسند افسروں اور پولیس افسران کو انتخابات والے ضلعوں میں لایا گیا تھا۔وزیراعلیٰ محمود خان خود انتخابی عمل کی نگرانی کرتے رہے۔ سرکاری وسائل اور پیسے کا بے دریغ استعمال بھی ہوا اور جس طرح دبئی سے ایک ارب پتی اے ٹی ایم کو لاکر پشاور میں مئیر شپ کا امیدوار بنایا گیا تھا، اسی طرح اکثر ٹکٹ ارب پتیوں اور کروڑ پتیوں کو دئے گئے تھے جو پیسے کا بھرپور استعمال کرتے رہے۔ اگر حکومتی طاقت اور وسائل ساتھ نہ ہوں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کتنے ووٹ حاصل کرسکے گی؟
پانچویں حقیقتـ : 2018کے انتخابات میں پشاور کی سو فی صد نشستیں پی ٹی آئی نے لی تھیں یا اس کو دلوائی گئی تھیں لیکن اب مئیر کا الیکشن جے یو آئی کے حصے میں آیا جبکہ مئیر کا حلقہ انتخاب کئی ایم این ایز کے حلقوں پر مشتمل تھا۔ پشاور کی تحصیلیں اے این پی اور جے یو آئی کے حصے میں آئیں اور صرف ایک تحصیل پی ٹی آئی نے جیتی۔مردان میں سوائے ایک کے باقی تمام قومی اور صوبائی نشستیں گزشتہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو دی گئی تھیں لیکن اب کی بار شہر کے مئیر اے این پی کے حمایت مایار منتخب ہوئے جبکہ تمام تحصیلیں جے یو آئی نے جیتیں۔
وفاقی وزیر علی محمد خان کے علاقے مردان کے کاٹلنگ جیسی بعض تحصیلوں میں توپی ٹی آئی دوسری اور تیسری بھی نہیں بلکہ چوتھی پوزیشن پر آئی۔ شہریار آفریدی اور شبلی فراز کا کوہاٹ ڈویژن بھی گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کو دلوایا گیا تھا لیکن اب یہاں سے پی ٹی آئی کا مکمل صفایا ہوگیا۔ یہی حالت بنوں کی رہی۔ قبائلی اضلاع کی بات کریں تو خیبر ضلع گزشتہ عام انتخابات میں مکمل طور پر پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال دیا گیا تھا لیکن اب کی بار دونوں تحصیلوں پراسے شکست ہوئی۔
چارسدہ ضلع بھی پچھلے الیکشن میں پی ٹی آئی کو دلوایا گیا تھا لیکن یہاں کی تین تحصیلوں میں سے ایک تحصیل بھی وہ نہ جیت سکی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یا تو 2018کے انتخابات جعلی تھے یا پھر پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی اتنی بری ہے کہ 2018کے مقابلے میں اس کا رخ بالکل الٹ سمت میں ہے۔ پی ٹی آئی کی جگہ اے این پی یا پیپلز پارٹی کی جگہ جے یو آئی کی طرف سے لینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جے یو آئی کو پی ٹی آئی کا نمبرون مخالف سمجھا جاتا ہے کیونکہ صرف جے یو آئی نے گزشتہ تین سال میں کھل کر اور ڈٹ کر پی ٹی آئی کی اپوزیشن کی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔