بلاگ
Time 23 دسمبر ، 2021

وزیر اعلیٰ کا استعفیٰ تو بنتا ہے؟

حکمراں اپنے ہی گڑھ میں ہار گئے ہیں۔ کتنے برج الٹ گئے۔ رعونت رُسوا ہورہی ہے۔تکبر گھٹنوں میں سر دیے ہوئے ہے۔ حکومت وقت کبھی بلدیاتی انتخابات میں اس طرح شکست سے دوچار نہیں ہوئی۔ملک میں اگر حقیقی جمہوریت ہوتی تو وزیر اعظم کو اس شکست پر خود استعفیٰ دے کر ملک بھر میں عام انتخابات کروانے چاہئے تھے۔ لیکن کے پی کے وزیر اعلیٰ کو تو اخلاقی طور پر مستعفی ہوجانا چاہئے۔اس شکست کے اسباب کچھ بھی ہوں۔ یہ ناکامی ان کی ذمہ داری ہے۔ عمران خان کو بطور پارٹی سربراہ ان سے استعفیٰ لے لینا چاہئے۔

میرے لیے یہ انتخابی نتائج صرف پی ٹی آئی کے لیے نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ اس لیے میں نے پشاور میں مختلف احباب سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے رابطے کیے تاکہ حقائق سے آگہی ہو۔ ان میں ایڈیٹر بھی ہیں۔ ماہرین تعلیم بھی۔ ڈرامہ نویس بھی۔ متحرک رپورٹر بھی سب سےپہلا نمبر تو مہنگائی کو دے رہے ہیں۔ بجلی، گیس میسر بھی نہیں لیکن مہنگی ہونے جارہی ہے۔ 

پیٹرول کے نرخ بڑھتے ہیں تو ساتھ ہی عمران خان کے مخالفین کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے۔ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ عمران خان مہنگائی کے اثرات کم کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کررہے ۔ جمعیت علمائے اسلام کی کامیابی کی فوری وجہ افغانستان میں طالبان کا بر سراقتدار آجاناہے۔ ایسے متقی حکمراں پاکستان میں بھی لانے کے لیے ان کے بزرگ ووٹر اس الیکشن کو جہاد سمجھ کر ووٹ دینے نکلے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن 3سال اپنے حامیوں کا لہو گرماتے رہے ہیں۔ ان کی یہ محنت رنگ لائی ہے۔ سیکولر طبقہ بالخصوص نوجوان بیزار ہیں۔ ووٹ دینے نہیں نکلے۔

ایک اور موثر سبب پی ٹی آئی کے وفاقی اور صوبائی وزراء کی باہمی کشمکش بتائی جارہی ہے۔ آپس میں کھلے اختلافات ہیں۔ کئی حلقوں میں کامیاب ہوسکنے والے امیدوار آزاد حیثیت میں لڑے ہیں۔ بہت سے حلقوں میں جہاں ان کو ٹکٹ نہیں ملا، آزاد حصّہ لے کر کامیاب ہوگئے ہیں۔ وزراء نے اپنے بھائیوں عزیزوں کو بلدیاتی اداروں پر مسلط کروانا چاہا ہے۔

ایک اور بڑی وجہ کورونا کی عالمی وبا ہے جس کے سبب مہنگائی بھی ہوئی ہے۔ بے روزگاری بھی۔ یہ اگر چہ ایک عالمی منظر نامہ ہے لیکن اس کے تدارک کے لیے مقامی سطح پر کوششیں نہیں کی گئیں۔

سوشل میڈیا نے بھی حشر ڈھایا ہے۔ عمران خان کا سحر توڑدیا گیا ہے۔ ایسی ایسی کہانیاں گردش میں آئیں کہ عمران خان کے حقیقی دلدادگان بھی متنفر ہوتے گئے۔ کووڈ کے لیے جاری ہونے والے فنڈز میں خوردبرد کی داستانیں فیس بک پر ہنگامہ برپا کرتی رہیں۔لوگوں کو گلہ ہے کہ عمران خان نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

گورنر، وزیر اعلیٰ عوام سے دور رہتے ہیں۔ اوپر سے بد زبانی۔ عوام کی بہبود کے لیے کوئی بڑے منصوبے نہیں۔ وزیر اعلیٰ کا میڈیا سے رویہ بھی مناسب نہیں بتایا جارہا۔ اخبارات کو اشتہارات کی ادائیگیاں کئی کئی ماہ سے رُکی ہوئی ہیں۔

ایک ماہر تعلیم نے بہت پتے کی بات کی کہ پہلی بار کے پی میں نوجوانوں نے روایتی سیاستدانوں سے تنگ آکر پی ٹی آئی کو سینے سے لگایا، اس وقت بھی کوئی خاص کارکردگی نہیں تھی لیکن عمران خان کی یہ بات ان کے دل میں گھر کر گئی کہ صرف صوبائی حکومت ہونے سے تبدیلی نہیں آسکتی۔ اس کے لیے وفاقی حکومت میں ہونا بھی ضروری ہے۔ اب 2018 میں جب وفاق کی باگ ڈور عمران خان کے ہاتھوں میں آگئی، اب کارکردگی نہ ہونے کا کوئی جواز نہیں رہا تھا۔ اس لیے جب کے پی والوں کو اپنا حق رائے دہی ملا تو انہوں نے عمران خان کو وہ جذباتی حمایت نہیں دی بلکہ اکثر مقامات پر مسترد کردیا۔

ہم نے ان احباب سے صحت کارڈ کے بارے میں دریافت کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پر اکثر شہروں میں عملدرآمد نہیں ہوتا۔ مقامی ایم این اے، ایم پی اے اس سلسلے میں کوئی تعاون نہیں کرتے۔ایک نوجوان صحافی کی یہ رائے بھی ہے کہ کے پی والے دوسرے صوبوں کی نسبت اپنا قبلہ جلد بدل لیتے ہیں۔ وہ سندھ یا پنجاب کی طرح کسی ایک سیاسی پارٹی کے یرغمال بنے نہیں رہتے۔

کچھ ماہرین گہرائی میں جاکر یہ تجزیہ بھی کرتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات زیادہ تر غیر جماعتی بنیادوں پر ہوتے رہے ہیں۔ اس لیے اس میں پارٹی سیاست نہیں محلہ سیاست کا کردار زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان نتائج کو بھی اس روشنی میں دیکھنا چاہئے۔ ووٹ کسی پارٹی کو نہیں بلکہ با اثر امیدواروں کو ملا ہے۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔اس زاویۂ فکر پر سب کا اتفاق ہے کہ 2023 کے عام انتخابات کے لیے رجحانات کا اندازہ ان نتائج سے کیا جاسکتا ہے۔ بعض احباب تو اس حد تک جارہے ہیں کہ دو سال بعد پی ٹی آئی کو اکثر حلقوں میں امیدوار بھی نصیب نہیں ہوں گے۔ پی ٹی آئی کو کسی نہ کسی دوسری پارٹی سے اشتراک کرنا ہوگا۔ اگر کارکردگی اور نا اہلی کی رفتار یہی رہی تو پی ٹی آئی کو اتحادی پارٹی کا جونیئر پارٹنر بننا ہوگا۔

ایک سوچ یہ بھی ہے کہ مقتدر حلقوں کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوئی ہے۔ خاص طور پر پشاور کے کماندار نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ انہیں ہیڈ کوارٹر سے غیر جانبدار رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے ایک صفحے پر ہونے کا جو طرۂ امتیاز تھا۔ وہ نتیجہ خیز کیوں نہیں رہا۔ کیا اب وہ صفحے چھوڑ گئے ہیں۔ کیا الیکشن واقعی آزادانہ اور منصفانہ تھے۔ یا مہربانی کا رُخ بدل رہا ہے۔

بعض من چلے یہ کہہ رہے ہیں کہ جان بوجھ کر جھٹکا دیا گیا ہے۔ میں یہ سوال بھی کررہا ہوں کہ کیا مقتدر حلقوں کی مداخلت صرف الزام ہوتی تھی یا وہ واقعی تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑ دیا کرتے تھے۔ ان انتخابی نتائج نے کے پی کا سیاسی منظر نامہ بدل دیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کا غلبہ ہو رہا ہے۔ کیا ان کے پاس کوئی بلدیاتی پالیسی ہے۔ کیا صوبائی اور وفاقی حکومتیں بلدیاتی حکومتوں سے تعاون کریں گی؟ کے پی میں آئندہ دو سال نئی سیاسی کھینچا تانی رہے گی۔

عمران خان اس شکست کے بعد کرکٹ کے کس فارمولے کو آزمائیں گے۔ اتنا اسکور تو ہے نہیں کہ وہ اننگز ختم ہونے کااعلان کردیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔