مولانا آ رہے ہیں؟

پاکستانی عوام کی اکثریت مذہب سے بے پناہ محبت کرنے والے لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہاں پر بڑے بڑے تبلیغی اجتماعات ہوتے ہیں جن میں لاکھوں افراد شرکت کرتے ہیں۔ میلاد النبیؐ کے موقع پر پورے ملک میں جشن کا سماں ہوتا ہے۔محرم کے مواقع پر پورا ملک سوگ کی کیفیت میں ہوتا ہے لیکن عوام کے سیاسی شعور کی پختگی کا یہ عالم ہے کہ وہ مذہبی جماعتوں کو ووٹ کم ہی دیتے ہیں۔

 انتخابات کے دنوں میں مذہبی رہنماؤں کے جلسے تو عظیم الشان ہوتے ہیں لیکن ووٹوں کے معاملے میں ہاتھ تنگ رہتا ہے۔ 1970کی دہائی مذہبی سیاست کے عروج کی دہائی سمجھی جاتی ہے جب ایک طرف تو پورے ملک میں مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا عبد الستار خان نیازی کا طوطی بولتا تھا تو دوسری طرف مفتی محمود صوبہ سرحد کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر بھی متمکن ہوئے۔ اسی دہائی میں تحریک نظامِ مصطفیٰ چلائی گئی۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا لیکن اس کے باوجود قومی پارلیمانی سیاست میں مذہبی جماعتوں کا کردار محدود رہا۔

 جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے دنوں میں جماعت اسلامی نے اپنے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ کیا خصوصاً کراچی میں جمعیت علمائے پاکستان کی متبادل قوت کے طور پر سامنے لائی گئی۔ قاضی حسین احمد جیسی دبنگ قیادت کے باوجود پارلیمان میں انکا کردار خال خال ہی نظر آیا۔

 جنرل پرویز مشرف کے دور میں متحدہ مجلس عمل ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی لیکن جس تیزی سے اسے عروج حاصل ہوا اسی تیزی سے وہ زوال پذیر بھی ہوگئی۔ گزشتہ برسوں میں تحریک لبیک نے حیران کن نتائج پیش کیے اور پورے ملک میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت ٹھہری۔ 

خیبر پختونخوا میں حکومتی بدترین کارکردگی اور مولانا کی بہترین حکمت عملی کی بدولت بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جے یو آئی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔ مولانا فضل الرحمٰن اپنی طرز کے منفرد سیاستدان ہیں۔وہ مذہبی وضع قطع رکھنے کے باوجود سیاست کو سیاسی اصولوں کے مطابق ہی سر انجام دیتے ہیں۔ 

انتخابات جیتنے اور اقتدار تک پہنچنے کے لیے ان تمام راستوں پر چلتے ہیں جو دیگر سیاسی جماعتیں اختیار کرتی ہیں۔زبان و بیان کی طاقت سے کسی بھی مؤقف پر مضبوط دلائل پیش کرنے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی بدترین کارکردگی سے مایوس لوگوں نے عوامی نیشنل پارٹی یا کسی سیکولر جماعت کا انتخاب کرنے کے بجائے جمعیت علمائےاسلام کا انتخاب کیا۔جبکہ تحریک لبیک نے بھی کونسلر کی سطح پرقابلِ ذکر کامیابی حاصل کی۔

 ان چونکا دینے والے نتائج سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مولانا ایک مرتبہ پھر قومی طاقت کے دھارے میں شامل ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا سے موصول ہونے والے نتائج کے مطابق 17اضلاع کی 60تحصیل کونسلز میں سے 52کے نتائج سامنے آئے جن میں جے یو آئی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ 5سٹی کونسلز میں سے چار پر انتخاب ہوا۔ کوہاٹ، پشاور اور بنوں میں مولانا کے نامزد کردہ امیدوار سٹی مئیر منتخب ہوئے۔ جبکہ مردان میں عوامی نیشنل پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوا اور دوسرے نمبر پر جے یو آئی کا امیدوار رہا۔

 تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بہت پیچھے دکھائی دیں۔ جماعت اسلامی نے بھی کم بیک کیا اس سے قبل گوادر میں عوامی حقوق کے تحفظ کیلئے جماعت اسلامی نے بھرپور کردار ادا کیا۔ ان نتائج کے بعد یہ سوال زیر بحث ہے کہ کیا پاکستانی عوام کی اکثریت موجودہ نظام میں موجود سیاسی جماعتوں کے کردار اور رویّے سے مایوس ہو چکی ہے؟ کیا بڑی سیاسی جماعتیں عوام میں اپنا اعتماد کھو رہی ہیں؟ کیا مذہبی طبقہ عوام کا اعتماد حاصل کر رہا ہے؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کا انتظار کرنا ہوگا۔ 

خیبر پختونخوا کے نتائج سے حوصلہ پاکر پنجاب میں مذہبی قوتیں خصوصاً تحریک لبیک کافی حد تک متحرک ہو چکی ہے۔ میڈیا کوریج سے دور رہ کر اضلاع کی سطح پر تنظیم سازی پر توجہ دی جا رہی ہے اور اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں کو ٹف ٹائم دے گی۔

 پاکستان میں موجود بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا ووٹر مسلم لیگ نون سے ناراض ہے۔ اور وہ سارا ووٹ تحریک لبیک کو جا سکتا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور ممتاز قادری کے واقعات کے بعد بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے عوام کی اکثریت مسلم لیگ نون کے رویّے سے شدید متنفر ہے جس کا کچھ اظہار تو 2018کے انتخابات میں بھی ہوااور آئندہ انتخابات میں بھی اس کی توقع ہے۔

 مولانا فضل الرحمٰن کی کامیابی پر سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کرنے والے میاں محمد نواز شریف ان دنوں ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت ہیں۔ ان کے پاکستان آنے کی افواہیں گرم ہیں۔ سردار ایازصادق نے اپنی ایک تقریر میں میاں نواز شریف کی واپسی کا عندیہ دیا جب کہ میاں صاحب نے خود بھی اپنی ایک تقریر میں اشارتاً پاکستان آنے کی بات کی۔

 تاہم مقتدر حلقوں سے اس طرح کا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ میاں نواز شریف کے لیے راستے ہموار ہو چکے ہوں۔ بادی النظر میں کارکنان اور جماعت کو متحد اور متحرک کرنے کے لیے اس طرح کے بیانات دیے جارہے ہیں، جیسا کہ ماضی میں بھی ہوا ہے۔

ذرائع کے مطابق مقتدر حلقوں نے تاحال میاں نواز شریف کی واپسی کا کوئی سگنل نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی ترجمان بڑے اعتماد سے کہہ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کے برطانیہ میں قیام کے حوالے سے کی گئی اپیل پر ان کے خلاف فیصلہ آ سکتا ہے اس لیے قبل از وقت انکی واپسی کی افواہوں کا بازار گرم کیا گیا ہے۔ حقیقت جو بھی ہو،ایک بات طے ہے کہ آئندہ کے سیاسی منظر نامے پر مذہبی جماعتوں کا ایک مؤثر کردار نظر آئے گا مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کو انتخابی حکمت عملی ترتیب دیتے وقت ان حقائق کا ادراک کرنا ہوگا۔

2021 کاسورج غروب ہورہا ہے۔2022 کے نئے اہداف مقرر کیے جا چکے ہیں۔سیاسی طور پر یہ سال ہنگامہ خیز ثابت ہوسکتا ہے۔میری دعا ہے کہ اللّٰہ کریم نیا سال پاکستان اور اہل پاکستان کیلئے خیر و برکت کا سبب بنائے اور اہل پاکستان مایوسی سے نکل کر امید اور ترقی کے سفر پر گامزن ہوں۔پاکستان زندہ باد!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔