بلاگ
Time 02 جنوری ، 2022

اب بتائیں!

پنجرے میں قید ایک بندر جب اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ باہر نکال کر التجائیہ آوازیں نکالتا ہے تو کتنا ترس آتا ہے اس پر۔کبھی آپ نے ٹرک میں بندھی ہوئی بھینسیں دیکھی ہوں، جو بیس بیس گھنٹے تک کھڑی رہنے پر مجبور ہوں۔ آپ نے کبھی ایک بے یارومددگار بلی کو کھلے آسمان تلے چار بلونگڑوں کو جنم دیتے دیکھا ہے؟ آج کا انسان اگر دو منٹ بھی فارغ ہو تو جیب سے موبائل فون نکال کر اپنا دل بہلانا شروع کر دیتاہے۔

دوسری طرف یہ مخلوق ہے، جس کے پاس بجلی نہیں، خوراک کا ذخیرہ نہیں، لباس نہیں، سرما کی خوفناک راتوں میں مضبوط چھت نہیں، بستر نہیں۔ کتنا ترس آتا ہے، ان بیچاروں پہ۔

آپ کو اپنے انسان ہونے پر کتنا فخر ہے۔ آپ دیدہ زیب لباس پہنتے ہیں۔ بال تراشتے ہیں۔ آپ انجن کی مدد سے سفر کرتے ہیں۔ ہوا میں اڑتے ہیں۔ آپ رحمِ مادر میں جھانک کر دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کی ہونے والی اولاد میں کوئی بیماری تو نہیں۔ آپ ہزاروں کلومیٹرد ور اپنے عزیز سے بات ہی نہیں کر تے، اسے دیکھ بھی سکتے ہیں۔ ہزاروں انسانی نسلوں نے آج تک اس کرۂ ارض پہ جو کچھ سیکھا، وہ نئی نسل کو پڑھا دیا جاتا ہے۔

ریشمی پوشاک پہنا ہوا آدمی جب اپنے موبائل فون سے ان پنجروں کے سامنے اپنی سیلفی لیتا ہے تو کتنا ترس آتا ہے ان پر۔ ہزاروں برس سے انسان ان پر کاٹھی ڈالے بیٹھا ہے۔ اور تو اورآدمی اپنے پالتو جانوروں کو جنسی قوت بھی سے محروم کر دیتا ہے۔ اس سے بڑی ذلت اور کیا ہو سکتی ہے؟

اب تصویر کا دوسر ا رخ دیکھیں۔ دنیا کا ہرانسان کسی نہ کسی غم اور خوف میں ڈوبا ہوا ہے۔ آپ کسی فیشن ایبل، ارب پتی عورت سے بات کریں، اسے یہ دکھ کھائے جا رہا ہوگا کہ اس کا بیٹا اپنی بیوی کو اس پہ ترجیح دیتا ہے۔ با پ پریشان ہے کہ اولاد آپس میں لڑلڑ کے مر رہی ہے۔ 

بل گیٹس جیسے دنیا کے امیر ترین لوگ، جن کے پاس دنیا کی ہر نعمت موجود ہے اور جوعالمی سطح پر پولیو ویکسی نیشن جیسے منصوبے چلا رہے ہیں، انہیں تیس تیس سال بعد جا کے یہ اندازہ ہوتاہے کہ اپنے بچوں کی ماں کے ساتھ مزید گزارا ممکن نہیں۔ خواہ اس کے بدلے اپنی نصف جائیداد ہی سے کیوں نہ محروم ہونا پڑے۔

اسٹیفن ہاکنگ جسے ’’ماسٹر آف دی یونیورس ‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا، وہ کئی عشروں تک انگلی ہلا نے کے قابل بھی نہیں تھا۔ دولت میں کھیلنے والی، زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نامو ر شخصیات اذیت ناک المیوں کا شکار رہی ہیں۔ 

اداکارہ روحی بانو پہ ایسے ایسے جذباتی سانحات گزرے کہ وہ حقیقت کی دنیا سے بہت دور چلی گئیں۔ کھیلو ں کی تاریخ کا عظیم ترین نام، باکسر محمد علی عشروں ایسی حالت میں زندہ رہا کہ اسے بولنے اور گلاس پکڑنے میں بھی دقت ہوتی تھی۔

ملکہ برطانیہ اور شہزادہ ہیری کی بیوی میگن میں ایسی کشمکش ہوئی کہ ہیری اور میگن نے شاہی خطاب او ر شاہی خاندان ہی کو خیرباد کہہ دیا۔ ملکہ تلملاتی رہی لیکن کر تو کچھ نہ سکی۔ اس سے پہلے لیڈی ڈیانا کے ساتھ کیا ہواتھا؟ 

وہ بہن بھائی جوایک دوسرے پہ جان چھڑکتے تھے، بچوں کی آپس میں شادی کے بعد ایک دوسرے کو مار ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس دنیا کی ہر اداکارہ روز یہ گن کر سوتی ہے کہ اس کی جوانی کے کتنے مہ و سال باقی ہیں۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ سارے اینکر اور سارے یوٹیوبر صبح سے رات تک اپنی اور اپنے حریفوں کی ریٹنگ تاڑتے رہتے ہیں۔

دنیا کی آدھی آبادی صبح اس خوف کے ساتھ بیدار ہوتی ہے کہ سیٹھ اسے کام سے نہ نکال دے۔ افغانستان، شام اور افریقی ممالک میں مخلوق بھوک اوربارود سے مر رہی ہے۔ دنیا کی ساری دولت ایک فیصد سے بھی کم ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ ہر شخص اضطراب میں ہے۔ غریب پیٹ بھرنے کے لیے مضطرب ہے مگر امیر بھی خوش نہیں۔ اسے یہ غم لاحق ہے کہ اس کے کاروباری حریف کی دولت دوگنی ہوتی جا رہی ہے۔ آخر اس کی کیوں نہیں ؟

جانوروں کے پاس اگر سہولیات نہیں تو انہیں اس کا شعور بھی تو نہیں۔ بھینس کو آپ ائیرکنڈیشنڈ کمرے اور کیچڑ میں سے ایک کے انتخاب کا حق دیں اور دیکھیں کہ وہ کیا منتخب کرتی ہے۔ اسے اگرشعور ہو تو کیا اپنے ہی بول و براز پہ یوں بیٹھ جائے؟

اس سب کو نظر انداز بھی کر دیجیے تو دو چیزیں نہایت ہی خوفناک ہیں۔ اتنی خوفناک کہ اپنے انسان ہونے پہ ترس آنے لگتا ہے۔ جانو رمستقل خوف اور مستقل غم سے آزاد ہیں۔ فرمایا: اگر تم اس طرح توکل کرو، جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو ایسے رزق دیے جائو جیسے پرندے رزق دیے جاتے ہیں۔ وہ سب بھوکے مرنے کے خوف سے آزاد ہیں۔ 

آپ میں سے کتنے ہیں، جنہیں زندگی میں فاقے کرنا پڑے؟ کوئی بھی نہیں لیکن سب بھوکے مرنے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ بھوک سے زیادہ تو ہمیں خوف ما ر رہا ہے۔

 آج دنیا کی نصف سے زیادہ انسانی آبادی بھوکے مرنے کے خوف میں مبتلا ہے۔ یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ کل کیا ہوگا؟ انسانوں میں یہ درجہ صرف اولیا اللّٰہ کو حاصل ہے کہ وہ خوف اور غم سے آزاد کر دیے جاتے ہیں۔ وہ مومنٹ ٹو مومنٹ جیتے ہیں۔

دوسری اس سے بھی خوفناک بات یہ ہے کہ جس عقل پہ آپ اترا رہے ہیں کہ انجن بنا لیا، پہیہ بنا لیا، آپ نے ایک دن جا کر اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہے۔ ان ’’بیچاروں ‘‘ نے تو کوئی حساب نہیں دینا۔

اب بتائیں ان پہ ترس کھائیں یا خود پر ؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔