Time 02 جنوری ، 2022
بلاگ

2022: گھبرانا نہیں

2021 جیسے تیسے گزرا تو 2022 سے کیا اُمید وابستہ کی جائے؟ کیلنڈر کے صفحہ پلٹنے پہ بھلا تاریخ کب بدلتی ہے؟ سچ پوچھئے تو نئے سال کے حوالے سے کچھ بھی تو نہیں سوجھ رہا۔ تلخ زمینی حقائق اپنی جگہ منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔ 

گزشتہ سال کا اختتام اگر منی بجٹ پیش کیے جانے اور اس پر اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی پر ہوا تو نئے سال کا آغاز بھی خساروں کی معیشت کا پیٹ بھرنے کے لیے 360 ارب کے بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ عوام الناس کے نحیف کندھوں پر ڈال کر ہوگا۔ بڑے سرمایہ داروں کو دی گئی بے شمار استثنائوں میں سے کچھ کے ختم کیے جانے پر ہم کیوں تلملائیں یا پھر حکمران کس منہ سے مبارکبادیں وصول کررہے ہیں کہ بڑے گناہوں کا بوجھ کچھ ہلکا کرنے پہ ان کی بخشش ہونے سے رہی۔ 

سارے کا سارا ٹیکس اور اخراجات کا نظام ہے ہی عوام دشمن اور استحصالی قوتوں کے مفادات کا امین۔ ایسے میں وزیر خزانہ شوکت ترین کی دیدہ دلیری کو داد دینی پڑتی ہے کہ وہ 700 ارب روپے کے ٹیکس استثنائوں میں سے پچاس فیصد کو برقرار رکھنے کو اپنی غریب نوازی کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ ایک تحقیقاتی جائزے کے مطابق پاکستان کے اُمرا کو کم و بیش ساڑھے چار کھرب روپے کی مالی استثنائیں حاصل ہیں، جبکہ مراعات بے حد و حساب ہیں۔ 

جہاں 75 فیصد ٹیکس بالواسطہ ہوں، وہاں جنرل سیلز ٹیکس و دیگر بالواسطہ ٹیکسوں کی شرحوں میں مزید اضافے کا بوجھ تو براہِ راست عوام کو منتقل ہوجاتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ وزیر خزانہ جن مالدار طبقوں کی نمائندگی کرتے ہیں، انہیں کمال مہربانی سے جتلا رہے ہیں کہ دیکھئے میں نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر صرف آدھا عمل کیا اور اس میں بھی ٹیکس کو ریفنڈ کرنے کی سہولت برقرار رکھی ہے۔ 

مجھے کوئی سیاسی معیشت کا ماہر کیسے یقین دلا سکتا ہے کہ ٹیکسوں کا یہ بالواسطہ بوجھ صارفین کو منتقل نہیں ہوگا؟ ہول سیل کنزیومرانڈیکس میں مہنگائی 10.5 فیصد سے بڑھ کر 15 فیصد تک چلی جائے گی اور ضروری اشیا کا انڈکس 19.5 فیصد سے 25 فیصد سے اوپر پھلانگ جائے گا۔ 

پھر اس چھلانگیں مارتی مہنگائی پہ بھوک و افلاس کے گھنائونے سائے اور بڑھتے جائیں گے اور اس کا عالمی قیمتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ تیل کی عالمی قیمتیں کم ہورہی ہیں، یہاں ہر ماہ بڑھ رہی ہیں۔ ابھی دیکھئے اگلے کوارٹر میں بجلی، گیس، پانی کے بلوں اور کرایوں میں کتنا اضافہ ہوتا ہے۔ تاآنکہ اگلا بجٹ آجائے گا اور آئی ایم ایف کے ہاتھوں غریب کی آدھی روٹی بھی چھن جائے گی۔

سچی بات تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے جن نسخوں پہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی عمل کرتی رہی ہیں، اسی طرح کے فارمولے پہ تحریکِ انصاف بھی عمل کررہی ہے کیونکہ ان میں استحصالی طبقوں کا بھلا ہے جو ان تینوں جماعتوں پہ قابض ہیں اور ان کے مڈل کلاسیئے کارکن ایک دوسرے کا منہ کالا کرنے کے دھندے میں اپنی توانائیاں ضائع کرتے عمریں گزار بیٹھیں۔ ان کے بندر تماشے سے ٹیلی وژنوں پہ خوب رونق لگی رہتی ہے اور تجزیہ کاروں و اینکروں کی ریٹنگ کا ڈرامہ لگا رہتا ہے۔ 

عوام کے حقیقی مسئلے کیا ہیں اور ملک کو درپیش اصل بڑے چیلنجز کیا ہیں، ان کی بلا سے۔ اپوزیشن کا متبادل معاشی ایجنڈا کیا ہے؟ قوتِ خرید کے آدھے سے کم رہ جانے پر وہ مزدوروں کی اجرت اور ملازمین کی تنخواہیں دوگنی کرنے سے رہی۔ عمران خان کا میٹرو ٹرین اور صحت کارڈ کا موازنہ مضحکہ خیز ہے۔ 

پنجاب میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹراسپتالوں کو ختم کر کے عمران خان 400 ارب روپے سے انشورنس اور پرائیویٹ کلینکس کا کاروبار چمکانے جارہے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی آڑ میں سرکاری اسپتالوں میں پرائیویٹ میڈیکل پریکٹس کو فروغ دیا تھا۔

 احساس پروگراموں کے ذریعے غریبی کا خاتمہ مقصود نہیں، سیاسی حمایت خریدنے کا ڈھونگ ہے۔ نصف درجن احساس کارڈوں پہ آنے والے خرچ کا تخمینہ مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے قریب ہے۔ جو ظاہر ہے قابلِ عمل نہیں۔ بہتر ہوتا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہی کو زیادہ موثر اور معاشی طور پر بارآور بنایا جاتا۔ لیکن جب عمران خان احتساب میں بری طرح سے فلاپ ہوگئے تو انہیں نیا سیاسی شوشہ چاہیے تھا کہ اگلے انتخابات میں عوام کو منہ دکھانے کے لیے کچھ تو ہو۔

قرائن سے ظاہر ہے کہ نیا سال زبردست سیاسی ہنگامہ آرائی کا سال ہوگا۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوں گے اور نچلی سطح پہ مقامی سیاسی قوت پیدا ہوگی جو پارٹیوں کو مضبوط سیاسی بنیاد فراہم کرے گی۔ پختونخوا کے انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج نے عمران خان کے سیاسی زوال کا بڑا اشارہ دے دیا ہے۔ 

جیسا کہ پیش گوئی کی جارہی ہے، پنجاب کے مقامی انتخابات کے نتائج تحریک انصاف کے لیے اور بھی سنگین ہوں گے اور مسلم لیگ ن کے لیے زبردست مہمیز کا کام کریں گے۔ سال کے وسط تک ایون فیلڈ فلیٹس کے کیس کا فیصلہ ہوچکا ہوگا اور مریم نواز کی بریت کی صورت میں میاں نواز شریف وطن واپسی کا سوچیں گے۔

 تب تک ان کی تاحیات نااہلی کا معاملہ سپریم کورٹ میں طے ہوچکا ہوگا۔ سیاست میں نئی صف بندیاں ہوں گی۔ جو سوال ہنوز جواب طلب ہے وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کتنی زمین چھوڑے گی اور اسے کون کہاں اور کتنا پُر کرے گا؟ اپوزیشن کے سامنے ان ہائوس تبدیلی کے لیے غیر آئینی سیاسی اعانت درکار ہوگی، تو اس کا نتیجہ کم از کم جمہوری عمل اور آئینی اطوار کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ ابھی دیکھنا باقی ہے کہ قبل از وقت انتخابات کے لیے ماحول بنتا ہے کہ نہیں۔

اپوزیشن کے لیے اگلے بجٹ کے بعد موافق ماحول بن سکتا ہے لیکن بہتر ہوگا کہ تیسری قومی اسمبلی اور منتخب حکومت کو اپنا وقت پورا کرنے دیا جائے، تب تک عمران خان کابخار بھی اُتر چکا ہوگا۔ لیکن سال کے آخری حصے میں نئے چیف کی تعیناتی نہایت اہمیت کی حامل ہوگی۔ اس بار مسئلہ انفرادی نہیں اداراتی ہوگا۔ اس پر سیاست کھیلی گئی تو پورا سیاسی کھیل بگڑ سکتا ہے۔

 اپوزیشن اور حکومت نے اگر فیئر پلے نہ کیا تو حالات سیاستدانوں کے ہاتھوں سے پھر نکل سکتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ آئینی عمل کو آئینی دائرے میں رکھا جائے۔ دریں اثناء، عوام تنگ آچکے ہیں، یہ نہ ہو کہ عوام آگے نکل جائیں اور سیاستدان پیچھے رہ جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو اندھی سیاست کو اور کیا چاہیے، بس دو آنکھیں اور وہ بھی عوام کی۔ شاید وہ گھڑی آئے یا پھر ٹل جائے۔ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔