Time 04 جنوری ، 2022
پاکستان

کم عمری کی شادی: صرف قانون سازی نہیں سوچ بدلیں

سندھ کا چائلد میرج ایکٹ 2013 کے تحت شادی کے وقت لڑکی عمر کی حد 16سال سے بڑھا کر 18 سال کر دی گئی ہے لیکن دیگر صوبوں میں آج بھی عمر کی حد16سال ہی ہے / فوٹوفائل
سندھ کا چائلد میرج ایکٹ 2013 کے تحت شادی کے وقت لڑکی عمر کی حد 16سال سے بڑھا کر 18 سال کر دی گئی ہے لیکن دیگر صوبوں میں آج بھی عمر کی حد16سال ہی ہے / فوٹوفائل

کم عمری کی شادی ایک جرم ہے یہ بات ہم سب جانتے ہیں ، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کم عمر ی کی شادیوں کا رواج پہلے کی نسبت کم ہوا ہے، یقیناً اس کی اہم وجہ تعلیم و شعور کے ساتھ بہتر قانون سازی بھی ہے ، ساتھ ہی سول سوسائٹی کی اونچی آوازوں نے بھی اپنا اثر ڈالا ہے لیکن یہ آج بھی اہم ترین مسئلہ ہے۔

تین مائیں تین کہانیاں

1. دادو کی 20 سالہ سلمہ، جب چوتھی بار ماں بننے کے عمل سے گزری تو اسے نہیں معلوم تھا اس باراس کی حالت مزید خراب ہوجائے گی۔ پیدا ہونے والا بچہ کس مشقت اور تکلیف کے بعد اس کے ہاتھوں میں پہنچے گا یہ چند ماہ بعد پتا چلا ۔ وہ پہلے پہل دائی کے ہاتھوں پھر مڈ وائف اور لیڈی ہیلتھ ورکر سے ہوتی ہوئی لیاقت میڈیکل اسپتال پہنچی جہاں ایمرجنسی میں اس کا آپریشن کرکے ماں اور بچے کی جان بچائی گئی، پری میچور بچے کو انکیوبیٹر میں بھی رکھا گیا، کئی ماہ گزرچکے ہیں لیکن سلمہ صحت مند نہ ہو سکیں اوربچے کی حالت قابل رحم ہے ، مشکل لگتا ہے وہ اپنی زندگی کے5 سال بھی پورے کر پائیں ۔

2. (لاڑکانہ کی صفیہ ) نام بدل دیا گیا ہے اس وقت بیس بائیس سال کی ہیں، شکل سے اور چھوٹی لگتی ہیں، پانچویں جماعت میں تھیں کہ شادی ہوگئی، چار بچوں کی ماں ہیں ،  بیٹے کی آرزو میں انہیں کئی بار مس کیرج کے تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑا۔

3. جام شورو کے گاؤں گھرواری کی فاطمہ کے حمل کو دائی نے خراب کیا،  انہیں سکھر کے اسپتال پہنچایا گیا، جہاں انہوں نے چار بچیوں کے بعد پہلے بیٹے کو جنم دیا، کم عمر فاطمہ بیٹے کی پیدائش پر بہت خوش ہیں۔

یہ 3 کہانیاں اندرون سندھ کے مختلف علاقوں کی ہیں،  ان میں 2   لڑکیاں کم و بیش بیس سال کی ہوں گی، ان کے پاس شناختی کارڈ تو دور کی بات ، وہ عمر پوچھنے پر شرما جاتی ہیں ۔

جنوبی ایشیائی ممالک میں کم عمر ی میں کی جانے والی شادیوں کی شرح 28 فی صد ہے:یونی سیف /فوتوفائل
 جنوبی ایشیائی ممالک میں کم عمر ی میں کی جانے والی شادیوں کی شرح 28 فی صد ہے:یونی سیف /فوتوفائل

پاکستان کے ساتھ پوری دنیا کا مسئلہ:

کم عمر ی کی شادی جیسےظلم کا شکار صرف ہمارے بچیاں اور بچے نہیں ہوتے بلکہ پوری دنیا میں ہی یہ ظلم جاری ہے نا صرف ان کا بچپن چھین لینا جاتا ہے،  بے فکری ، کھیل کود اور پڑھنے کی عمر میں ان معصوم چہروں پر ذمہ داریاں واضح نظر آنے لگتی ہیں۔

یونی سیف کے مطابق جنوبی ایشیائی ممالک میں کم عمر ی میں کی جانے والی شادیوں کی شرح 28 فیصد،  پاکستان جرنل آف سوشل ایشو کے مضمون میں مینر احمد اور فوزیہ سلیم علوی لکھتے ہیں کہ بنگلا دیش میں 65 فیصد، انڈیا  میں 47 فیصد اورپاکستان کی 40 فیصد بچیاں18 سال سے پہلے ہی کسی کی دلہن بنا کر بیا ہ دی جاتی ہیں،  تکلیف دہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں 7 فیصد بچیوں کی شادی 15 سال سے کم عمر میں کردی جاتی ہے۔

یہ تحریر تین سال پرانی ہے، سال بدلے مگر حالات نہیں ، ساحل کی 2021 کی پہلی ششماہی رپورٹ کہتی ہے کہ پہلے 6 ماہ میں پاکستان بھر میں 51 چاِئلڈ میرج کیسز رپورٹ کئے گئے ۔

یہ سب بتانے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں کم عمری کی  شادیوں کی روایت پرانی چلی آرہی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان ماں اور پیدا ہونے والے بچے جسمانی ،ذہنی اورساپجی مسائل کی صورت میں اٹھاتے ہیں۔

سماجی تنظیم، آہنگ، بچوں کے تحفظ، جسمانی اور تولیدی صحت پر کام کرتی ہے، آہنگ کی آمنہ لطیف سمجھتی ہیں کہ اگر ایک بچی کی شادی کردی جائے گی تووہ خود کو سنبھالے گی یا آنے والے بچے اور گھر کو، کم عمر ماں ابھی خود کو سنبھال نہیں پاتی کہ اس کی شادی کر دی جاتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کم عمری کی شادی بھی زبردستی شادی ہی کی ایک شکل ہے جیسے روکنا ضروری ہے۔

چائلڈ میرج کا قانون کیا کہتا ہے:

ایڈووکیٹ رضیہ دانش نے کو بتایا کہ پاکستان میں چائلڈ میرج ایکٹ 1929 رائج ہے، اس قانون کے مطابق شادی کے وقت لڑکے کی عمر 18 اور لڑکی کی عمر 16سال سے کم نہیں ہونی چاہیے اگر میاں بیوی کی عمر طے شدہ حد سے کم ہوگی تو وہ مائنر یا بچے کہلائیں گے اور قانون بچوں کی شادی ممکن نہیں۔

سندھ چائلد میرج ایکٹ 2013 کے تحت شادی کے وقت لڑکی کی عمر کی حد 16سال سے بڑھا کر 18 سال کر دی گئی ہے لیکن دیگر صوبوں میں آج بھی عمر کی حد16سال ہی ہے جس کا فائدہ وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو لڑکیوں کی کم عمر میں شادی کر دیتے ہیں ۔

یاد رہے کہ مشہور زمانہ رینا کماری ا ور روینہ کماری بہنوں کے کیسز اس ہی قانونی کھیل کا حصہ بنے، قانون اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا جب کہ آگاہی کے ساتھ ساتھ سزائیں پر بھی عمل درآمد ضروری ہے۔

کم عمر ماں اور نومولود کو بچانا اہم تر :

بختاور جنرل اسپتال جامشورو شہر میں ایک پرائیوٹ طبی صحت کا مرکز ہے یہاں کے ڈاکٹر الطاف جتوئی کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس دائیوں کے ہاتھوں بگڑے ہوئے کیس کافی آتے ہیں، ایمر جنسی کی صورت میں مڈ وائف انہیں بروقت امداد مہیا نہیں کر پاتیں،  کہیں بچوں کے دل کی دھڑکن رک جاتی ہے ،  یہ مشکل کیسز ،کبھی پکڑ میں آجاتے ہیں اورکبھی انہیں آگے لیاقت یونی ورسٹی اسپتال بھیج دیا جاتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے مقامی سطح پر کام کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے، لوگ اس طرف نہیں آتے ، مقامی خواتین کا حاملہ ہونے کی صورت میں اسپتال آنے کا رجحان بہت کم ہے۔

نو عمر لڑکیاں اور خاص کر 15 سال سے کم عمر بچیوں کے زچگی کے مسائل ، بڑی عمر کے خواتین کی نسبت بہت زیادہ ہوتے ہیںڈاکٹر گلزار عثمان /فوٹوفائل
 نو عمر لڑکیاں اور خاص کر 15 سال سے کم عمر بچیوں کے زچگی کے مسائل ، بڑی عمر کے خواتین کی نسبت بہت زیادہ ہوتے ہیںڈاکٹر گلزار عثمان /فوٹوفائل

کم عمر ماؤں کی صحت زچگی کے دوران کتنی متا ثر ہوتی ہے؟ یہ جاننے کے لئے ہم نے لیاقت یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ایسو سی ایٹ پروفیسر اور کمیونٹی میڈیسن کے شعبے سے منسلک ڈاکٹر گلزار عثمان سے بات کی۔

انہوں نے  بتایا کہ نو عمر لڑکیاں اور خاص کر 15 سال سے کم عمر بچیوں کے زچگی کے مسائل ، بڑی عمر کے خواتین کی نسبت بہت زیادہ ہوتے ہیں،  خون میں کمی کے ساتھ ساتھ ان بچیوں میں بلند فشار خون اور فولاد کی کمی بھی اہم مسئلہ ہے  اور ان کے پیدا ہونے والے بچوںمیں وزن کم اور پری میچور ڈیلیوری کا امکان زیادہ ہے، حمل سے پہلے اور بعد میں ڈیپریشن کم عمر بچیوں میں زیادہ رپور ٹ کیا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ لیاقت میڈیکل یونی ورسٹی میں حاملہ خواتین کے آنے والے زیادہ تر کیسز خون کی کمی اور بلند فشار خون کے ساتھ آتے ہیں ، زچہ و بچہ میں اس کی وجہ سے پیچیدگیاں بڑھ جانے کا امکان رہتا ہے، ماں اور بچہ غذائی قلت کابھی شکار ہوتی ہیں مقامی سطح پر انفیکشن بھی تولیدی صحت کا ایک اہم مسئلہ ہے۔

ٹرینڈ نرسنگ اسٹاف اور مڈ وائفری ماں کی صحت کی ضامن

گائنا کالوجسٹ کنیز فاطمہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ دنیا کے وہ حصے جہاں صحت کی سہولیا ت کم ہیں وہاں نرسوں اور ٹرینڈ مڈ وائف کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔اگر سو حاملہ خواتین کو وضع حمل سے گزرنا ہے تو 85 فیصد حاملہ خواتین تربیت یافتہ نرسوں اور دائیوں کے ہاتھوں باآسانی گزر جاتی ہیں لیکن باقی خواتین کو مشکلات کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔

اگر نرسوں اور دیگر عملے کو مزید تربیت اور سہولیات مہیا کر دی جائیں تو پاکستان میں پیدائش کے دوران مرنے والی ماؤں کی شرح کم کی جاسکتی ہےجن علاقوں میں ڈاکٹر نہیں وہاں دائیاں اور نرسیں اپنا کام اچھے طریقے سےکر سکتی ہیں  لیکن انہیں بھی سپروائز کرنا ضروری ہے ہر چھ ماہ بعد اسٹاف کا ڈیٹا لیا جاسکتا ہے اور انہیں کام کے دوران ہونے والی مشکلات کے لئےمزید تیار کیا جاتا رہےتو زچگی کے دوران مرنے والی ماؤں اور بچوں کو بچایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر گلزار بھی ڈاکٹر فاطمہ کی بات ہی تائید کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ پہلے کی نسبت گائنا کالوجسٹ کی تعداد بڑھی ہے  لیکن پہلے بھی اور آج بھی مڈوائف کا کردار اہم ہے۔ کیوں آج بھی پچاس فیصد ڈیلوریز، دائیوں اور مڈ وائف کے ہاتھوں سے ہی ہوتی ہیں لیکن ان کی بہتر تربیت بہت ضروری ہے اور انہیں کچھ ہنگامی نوعیت کی تربیت فراہم کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے جب ہی ماؤں کو بچایا جا سکتا ہے۔

چائلڈ میرج کا قانون: آگاہی کیوں ضروی ہے؟

گائنا کالوجسٹ کنیز فاطمہ نے آگاہی کے حوالے سے بتایا کہ ہمیں سمجھنا اور سمجھانا ہوگا کہ طبی ماہرین لڑکی کی کم عمری  میں شادی کرے کے مخالفت کیوں کرتے ہیں تو سنیں کہ 18 سال سے کم عمر ماؤں کی ہڈیاں اور پٹھے ابھی کمزور ہوتے ہیں  اکثر ہی دیکھا گیا ہے کہ ڈیلیوری کے دوران ماوں کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ پھر وضع حمل کے بعد نومولود اور ماں کو نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب ایک بالغ ماں بہتر انداز میں کر سکتی ہے ۔ دودھ پلانے کا عمل آسان نہیں ۔ پھر پیدائش میں وقفہ کا فیصلہ بھی ایک بالغ ماں باپ ہی بہتر انداز میں کر سکتے ہیں ۔

قاسم علی ، کراچی کے رہائشی ہیں وہ اپنی بھتیجی کے نکاح کی کہانی کچھ اس طرح سناتے ہیں کہ دو ماہ پہلے ان کے بڑے بھائی کی کال آئی ۔ انھوں نے کہا کہ وہ اگلے جمعہ بیٹی کرن کا نکاح کر رہے ہیں ۔ کرن لاڑکانہ کے ایک کالج میں فرسٹ ایئر کی طالبہ ہے ۔انھوں نے بھائی سے کہا کہ ابھی وہ 18سال کی نہیں ہوئی ،ایک سال انتظار کر لیں ،لڑکا بھی خاندان کا ہے ، بھائی کا کہنا تھا کہ ابھی بس نکاح کر رہے ہیں ، رخصتی نہیں ۔ انٹر کے بعد باقاعدہ شادی کر دیں گے۔ وہ جب شرکت کرنے کے لئے لاڑکانہ پہنچے تو انہیں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کے مولوی صاحب نے نکاح پڑھانے سے انکار کر دیا ہے۔ لڑکی ابھی چھوٹی ہے،کرن کا نکاح آگلے سال تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا ، قاسم سمجھتے ہیں کہ ہم لوگوں کو آگاہی مہیا کر کے اور پوری طرح بات سمجھا کر کم عمر ی کی شادیوں کو روکا جا سکتا ہے۔

آمنہ لطیف کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں خیال کیا جاتاہے کہ معاشی تنگی کم عمری کی شادیوں کی اہم وجہ ہے جو درست نہیں ، بچیوں اور لڑکیوں کو جنس کے طور پر استعمال کیا جاتاہے۔ ادلےاور بدلے میں بیٹی لینا عام ہے، بچی کو ماں بنادینا بھی ظلم ہے۔ بچپن چھین کر معصوم ذہینوں کو فکروں میں قید کرنا انصاف نہیں۔

آگاہی کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم،سماجی تنظیمں اور معاشرے کے دیگر کرداروں کو اپنا کردار ادا کریں ،خاص کر اساتذہ ، طبی عملہ اور مذہبی عناصر کو بھی آگاہی مہم میں شامل کیا جائے ، قانون پر عمل درآمد ہی اس صورت حال کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

مزید خبریں :