Time 07 جنوری ، 2022
پاکستان

رانا شمیم کیس: اٹارنی جنرل کی درخواست پر صحافیوں پر فرد جرم عائد کرنیکی کارروائی مؤخر

اسلام آباد ہائی کورٹ میں رانا شمیم بیانِ حلفی کیس کی سماعت ہوئی جس میں اٹارنی جنرل خالد جاوید نے میڈیا پرسنز کی حد تک توہینِ عدالت کی فردِ جرم کی کارروائی مؤخر کرنے کی استدعا کی جس کے بعد عدالت نے کارروائی 20 جنوری تک مؤخر کردی۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ صحافیوں کے خلاف فرد جرم کی کارروائی مؤخر کر کے رانا شمیم پر فرد جرم عائد کی جائے، انہیں فیئر ٹرائل کا حق حاصل ہوگا۔

انصار عباسی کی ساکھ پر شک نہیں لیکن انہیں اپنی غلطی کا احساس نہیں، جسٹس اطہر
انصار عباسی کی ساکھ پر شک نہیں لیکن انہیں اپنی غلطی کا احساس نہیں، جسٹس اطہر— فوٹو: فائل
انصار عباسی کی ساکھ پر شک نہیں لیکن انہیں اپنی غلطی کا احساس نہیں، جسٹس اطہر— فوٹو: فائل

اس موقع پر  عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ خبر کی اشاعت میں لاپرواہی پر مجرمانہ توہین عدالت کا کیس نہیں بنتا جس پر  چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ انصار عباسی کی ساکھ پر شک نہیں لیکن انہیں اپنی غلطی کا احساس نہیں، نا سمجھی میں بھی چیزیں ہوجاتی ہیں۔

ہم نے رانا شمیم کا دعویٰ چھاپا اور ثاقب نثار کا بھی دعویٰ چھاپا کہ ایسا کچھ نہیں، انصار عباسی
ہم نے رانا شمیم کا دعویٰ چھاپا اور ثاقب نثار کا بھی دعویٰ چھاپا کہ ایسا کچھ نہیں، انصار عباسی— فوٹو: فائل
ہم نے رانا شمیم کا دعویٰ چھاپا اور ثاقب نثار کا بھی دعویٰ چھاپا کہ ایسا کچھ نہیں، انصار عباسی— فوٹو: فائل

اس موقع پر انصار عباسی نے کہا عدالتی آرڈر میں لکھا گیا کہ اگرغلط حقائق بھی ہوئے تو مفاد عامہ میں چھاپوں گا، میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ میں نے بیان حلفی کی اشاعت میں احتیاط برتی ، عدالت اور جج کا نام نہیں لکھا، بیان حلفی کے بارے میں رانا شمیم نے بتانا ہے، ہم نے رانا شمیم کا دعویٰ چھاپا اور ثاقب نثار کا بھی دعویٰ چھاپا کہ ایسا کچھ نہیں۔

اس پر  چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی کارروائی کےدوران کوشش کی کہ آپ کو احساس ہوجائے کہ آپ نے کیا کیا؟ ایک بیانیہ بنایا گیا کہ اس کورٹ کے ججز Influnenced تھے، انکوائری کرانی ہے تو ان کی نہیں ہوگی جن کے بارے میں لکھا گیا، انکوائری پھر ان ججز کی ہوگی جواس وقت بینچز میں موجود تھے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا اس کیس میں میڈیا کا کردار ثانوی ہے، اگر آج انصار عباسی کے  پاس ایسا بیان حلفی آئے تو  وہ یقیناً اس کی مزید چھان بین کریں گے، رانا شمیم پر فرد جرم عائد کی جائے، ان کا فیئر ٹرائل کا حق ہوگا، باقی میڈیا پرسنزکی حد تک توہین عدالت کی فرد جرم کی کارروائی موخرکی جائے۔

کوئی مثال نہیں ملتی کہ میڈیا کو ایسا بیان چھاپنے پر قصوروار ٹھہرایا گیا ہو جس پر بیان دینے والا قائم ہو، ریما عمر
اس موقع پر عدالتی معاون ریما عمر نے بھی کہا کہ معاملہ اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ معلومات تک رسائی کا بھی ہے— فوٹو: فائل
اس موقع پر عدالتی معاون ریما عمر نے بھی کہا کہ معاملہ اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ معلومات تک رسائی کا بھی ہے— فوٹو: فائل

اس موقع پر عدالتی معاون ریما عمر نے بھی کہا کہ معاملہ اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ معلومات تک رسائی کا بھی ہے، جب یہ اسٹوری شائع ہوئی اس کے بعد سے بیان حلفی سوشل میڈیا پربھی گردش کر رہا تھا۔ اس کورٹ کے جج شوکت عزیزصدیقی نے بہت الزامات لگائے جو میڈیا نے رپورٹ کیے۔ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ میڈیا کو ایسا بیان چھاپنے پر قصوروار ٹھہرایا گیا ہو جس پر بیان دینے والا قائم ہو۔

 اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پھریہ بیانیہ درست ہے کہ جو سزا معطل کی تھی وہ بینچ کسی کے کہنے پربنے تھے؟ جس پر ریما عمر نے کہا کہ ایسی بات نہیں۔

 انصار عباسی یہ عوام تک سچ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، وکیل رانا شمیم

کیس میں رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ انصار عباسی کو بہت پہلے سے جانتے ہیں ، یہ عوام تک سچ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں  جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صحافی کو چھوڑ دیں اور میرے کلائنٹ کے خلاف کارروائی کریں؟

لاپروائی سے اشاعت پر مجرمانہ توہین عدالت کا کیس نہیں بنتا

عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ لاپروائی سے اشاعت پر مجرمانہ توہین عدالت کا کیس نہیں بنتا ، فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس میں توہین عدالت کی جسے تمام میڈیا نے دکھایا ، اس کیس میں بھی میڈیا کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی تھی۔

پی ایف یو جے کے ناصر زیدی نے کہا ہمیں اس عدالت سے انصاف ملا ہے اور آپ اندھیرے میں روشنی کے کرن ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ چارج نہ فریم کریں۔ سینیئر صحافی افضل بٹ نے کہا ہمیں ایک خوف ہے کہ عدلیہ سے ایسا کوئی آرڈر آگیا تو رپورٹر کیلئے خبر دینا مشکل ہوجائے گا۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 20 جنوری تک ملتوی کردی۔

رانا شمیم کا بیان حلفی

15 نومبر 2021 کو گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم کا مصدقہ حلف نامہ سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے جب اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا کہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے— فوٹو: فائل
15 نومبر 2021 کو گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم کا مصدقہ حلف نامہ سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے جب اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا کہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے— فوٹو: فائل

15 نومبر 2021 کو گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم کا مصدقہ حلف نامہ سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے جب اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا کہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔

گلگت بلتستان کے سینیئر ترین جج نے پاکستان کے سینیئر ترین جج کے حوالے سے اپنے حلفیہ بیان میں لکھا کہ ’’میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز شریف عام انتخابات کے انعقاد تک جیل میں رہنے چاہئیں۔ جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو وہ (ثاقب نثار) پرسکون ہو گئے اور ایک اور چائے کا کپ طلب کیا۔‘‘

دستاویز کے مطابق، شمیم نے یہ بیان اوتھ کمشنر کے روبرو 10؍ نومبر 2021ء کو دیا ہے۔ نوٹرائزڈ حلف نامے پر سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان کے دستخط اور ان کے شناختی کارڈ کی نقل منسلک ہے۔ مکمل حلف نامہ پڑھیں۔۔

مزید خبریں :