بلاگ
Time 08 جنوری ، 2022

"اب کسی کو الطاف حسین نہیں بننے دیں گے"

"اور اب میں ملتمس،،، متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار سے، کہ وہ آئیں اور آپ سے خطاب کریں۔۔۔" 

نوجوان کمپئر نے ایم کیوایم پاکستان کے 2017 کے ایک جلسے میں آخری تقریر کے لیے فاروق ستار کو دعوت دیتے ہوئے پورا زور لگا ڈالا لیکن بیک اسٹیج ایک مرکزی رہنما نے اس نوجوان کو اشارے سے بُلایا اور کہا،

"سربراہ نہیں، کنوینر،،،آئندہ یاد رکھنا"

میں نے حیرت سے پوچھا، "ابھی تو متحدہ نے بانی اور سربراہ الطاف حسین سے تازہ تازہ اظہار لاتعلقی کیا ہے۔ ابھی سے؟"

"یہ اسی لیے ہے تاکہ کوئی اور الطاف حسین نہ بن سکے" مرکزی رہنما نے جواب دیتے ہوئے سگریٹ کا لمبا کش لیا۔

اور پھر حالات اور واقعات اسی سمت جانا شروع ہوگئے، بلاآخر 2018 میں "کنوینر" فاروق ستار کی چھٹی کردی گئی اور خالد مقبول نئے "کنوینر" بن گئے۔

آج پھر ایم کیوایم دھڑوں کے اتحاد اور انضمام کی بازگشت ہے۔ وجہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے خلاف مشترکہ محاذ بنانا ہے۔ پہلی بار مہاجر قومی موومنٹ کا وفد متحدہ مرکز بہادرآباد بھی پہنچا اور خالد مقبول صدیقی کو آفاق احمد کا پیغام پہنچایا۔ اس سے ایک روز قبل رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں متحدہ دھڑوں سے رابطے شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

 اہم بات یہ بھی ہے کہ اس اجلاس میں ایم کیوایم کے چار اہم اراکین رابطہ کمیٹی شہر یا ملک سے باہر ہونے کے باعث شریک نہیں تھے۔ یہ چار رہنما فاروق ستار، پی ایس پی، اور حقیقی سے متعلق اختلافی رائے رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس معاملے پر لب کشائی سے گریزاں ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے خالد مقبول صدیقی نے یہ فیصلہ بطور "سربراہ" کیا ہے۔

ادھر تین دہائیوں قبل ایم کیوایم سے راستے جدا کرکے حقیقی کی بنیاد ڈالنے والے آفاق احمد کراچی میں اپنے حالیہ جلسے کی کامیابی پر پُراعتماد ہیں۔ حقیقی کا ایک وفد ڈاکٹر فاروق ستار سے ان کی رہائش گاہ پر بھی ملاقات کرچکا ہے۔ آفاق احمد ایک نجی گفتگو میں اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ اگر اتحاد کے لیے انہیں فی الوقت عملی سیاست سے کنارہ کشی بھی اختیار کرنا پڑے تو وہ تیار ہیں۔ بنیادی طور پر حلقوں میں اپنے نظریات اور ذات کے حوالے سے "کٹر" تصور کیے جانے والے آفاق احمد کی جانب سے "لچک" کا یہ مظاہرہ کچھ بتارہا ہے۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی ملاقاتوں کے سلسلے کو تیز کردیا ہے۔ یہ شہباز شریف اور جہانگیر ترین سے مل چکے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کی بیٹی کی شادی میں بھی موجود تھے۔ لاہور کے بعد ان کی اگلی منزل اسلام آباد ہوگی جہاں کچھ مزید ملاقاتیں کی جائیں گی۔ یہ ایم کیوایم میں بطور فیصلہ ساز واپسی کے لیے بھی کوشاں ہیں اور اپنی لابنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم پلان کی ناکامی کی صورت میں نون لیگ کی قربت سے لیکن آزاد حیثیت میں سیاست میں کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔

پی ایس پی سربراہ مصطفی کمال پہلے ہی اسلام آباد یاترا پر ہیں اور فضل الرحمن سے اہم ملاقات کرچکے ہیں۔ پی ایس پی نے بھِی حکومت سندھ کے خلاف اس ماہ کے آخر میں بڑے احتجاج کی تیار پکڑ رکھی ہے۔ سندھ کے بلدیاتی قانون میں ترامیم کے بعد مشترکہ حریف پیپلزپارٹی کے خلاف متحدہ سے ہاتھ ملانا تو پاک سرزمین پارٹی کو منظور ہے لیکن نومبر 2017 میں انضمام کے ایک ناکام تجربے کے بعد فی الوقت یہ ایسا ایڈونچر نہیں کرنا چاہتے۔ ایک کرتا دھرتا اس بات کا برملا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ اگر پورے صدق دل سے کوشش کے باوجود ہم عملی اور انتخابی سیاست میں کامیاب نہ ہوسکے تو واپس چلے جائیں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ ماہ کراچی کے مقامی ہوٹل میں ایم کیو ایم پاکستان نے اپنی کثیرالجماعتی کانفرنس میں جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی تک کو مدعو کرلیا لیکن اپنے کسی دھڑے کو دعوت نامہ نہیں بھیجا۔ پھر یہ اچانک تیس دنوں میں کیا ہوا ہے کہ متحدہ سمیت اسکے دھڑوں کی سیاسی سرگرمیوں میں نہ صرف تیزی آئی ہے بلکہ قربتیں بھی بڑھ رہی ہیں؟ ذرائع کا بتانا ہے کہ فروری کے اختتام تک ان باہمی رابطوں میں مزید تیزی آئے گی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ متحدہ دھڑوں کے قریب آتے ہی، بہادرآباد مرکز کی پہلی منزل پر فاصلے بڑھنے لگتے ہیں۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔