11 جنوری ، 2022
سانحۂ مری کی المناک خبروں نے ملک بھر میں آلودگی اور فضا پر ہفتہ سے تنے غبار سے نجات کے بعد منائی جاتی اور شیئر ہوتی سیزن گریٹنگز اور سیاحت کے موڈ کو غم و الم میں تبدیل کردیا۔ گھر گھر صدمے میں ڈوب گیا۔ جو کچھ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر آر ہا ہے، وہ سراپا ماتم ہے۔ اس پر تبصرے کا یارا نہیں۔
ہمارا ملک کب تک بحرانی رہے گا اور قوم نہ جانے کب تک مسلسل المیوں سے دو چار رہے گی؟ اب تو یہ سوال ہی ہمارے ذہن میں نہیں آتا، تو جواب کیسے تلاش کریں؟۔ گزرے سال کے یومِ آزادی پر گریٹر اقبال پارک جیسے بڑے حساس اور تاریخی مقام پر جواں سال خاتون کے سیلفی بناتے اور بنواتے ہوئے، لاہور کی اٹھتی جوانیوں نے خود اور اپنے تئیں آزادی منانے والی خاتون کیساتھ وحشت و دہشت کا جو کھیل کھیلا، اسکے مناظر وائرل ہونے سے دنیا بھر میں لاہور کی روایتی زندہ دلی رسوا ہوئی، پاکستان بدنام ہوا اور ہر سچا پکا لاہوری پوری قوم کے مقابل دگنا تگنا شرم میں ڈوب گیا۔
واضح رہے سرسید احمد خاں نے تو لاہوریوں کو یوپی کے نوابوں کے مقابل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کیلئے کہیں زیادہ چندہ دینے پر ’’زندہ دلان لاہور‘‘ کے لقب سے نوازا تھا۔ ہم نے زندہ دلی کی کانوٹیشن ہی تبدیل کردی۔ ابھی اس شرمناک دھماچوکڑی کی کالک ماند نہیں پڑی تھی کہ سانحہ سیالکوٹ نے بیک وقت حکومت اور پوری قوم کے دل دہلا دیے۔ اور جو کچھ قصور میں ننھی پری زینب کے ساتھ ہوا تھا اس پر سماج کی باقی بچی، ہوس کے دباؤمیں ہونے والی سزا نے بھی ہمیں کوئی سبق نہ دیا۔
گویا ہماری شرمناک اور المناک نفسیاتی کیفیت کا غلبہ بہت بلند درجے پر چلا گیا ہے۔ ہر المیہ اور قوم کو دھچکا لگانے والے واقعہ سے اسکی تصدیق ہو رہی ہے، جو بہت الارمنگ ہے۔سانحہ مری ایک حد تک محدود لیکن غیرمعمولی قدرتی آفت سے تو ہوا، کہ مدتوں بعد ریکارڈ برف باری ہوئی، لیکن یہ وجہ ایک مخصوص فیصد تک ہی ہے۔
غالب جملہ وجوہات کا تعلق ہمارے سماجی بےحس رویے، انتظامی نااہلی اور مجرمانہ حد تک انتظامی (اور مشکوک بھی) غفلت اسکی وجہ بنی۔ اس میں مری کے ہوٹل/ ریسٹورنٹ مالکان اور سیاحوں کیلئے دوسری خدمات دینے والے اہل کاروں کے بےرحمانہ اور ظالمانہ حد تک کاروباری رویے بھی اس کی بڑی وجہ ہے۔
اس سانحہ میں ہماری سماجی و انتظامی نااہلی اور بےحسی کا ایک اور بڑا المیہ کمیونیکیشن ڈیزاسٹر کی صورت بےنقاب ہوا ہے۔ ایک اہم وجہ سیاحوں کی برفباری میں پھنسی کاروں میں خود کو ممکنہ حد تک محفوظ رکھنے کی عدم آگہی بنی۔ اس پر سیاحوں کو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ہمارے ہاں نہ اسکولوں میں اور نہ ہی میڈیا پر سیفٹی اقدامات کی ایسی ابلاغ مہم چلتی ہیں اور یہ کاربن مونو آکسائیڈ سے بچنے کی تو پڑھے لکھے کاروں والوں کو بھی بالکل ہی آگہی نہیں۔
یہ قابلِ فہم وجہ تو اب تجزیوں میں سامنے آئی ہے تو برفباری میں سفر اور ٹریپ ہونے پر حفاظتی اقدامات کا ابلاغ فروغ سیاحت کی ایک اہم ضرورت بن کر واضح ہوا ہے۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، محکمہ موسمیات کی غیرمعمولی امکانی موسمی صورتحال کی متعلقہ سرکاری اداروں کو تحریری اطلاع کے باوجود، مری کی تحصیل، اوپر ضلعی انتظامیہ، پنجاب کا محکمہ سیاحت، پولیس خصوصاً ٹریفک پولیس مجرمانہ حد تک بڑی تعداد میں جاں لیوا سانحہ مری کے ذمے دار سخت نااہل ہیں، اس درجے کی اجتماعی نااہلی انتظامی ڈیزاسٹر سے زیادہ بذات خود شہریوں کیلئے پُرخطر المیہ ہے۔
جن ہوٹل/ ریسٹورنٹ مالکان نے اس سنگین صورتحال کو گاہک سیاحوں کی مدد اور تعاون کرنے کی بجائے انتہائی ناجائز منافع کمانے کا موقع بنایا ان کا یہ ’’تجارتی‘‘ رویہ قابلِ مذمت، شرمناک اور ظالمانہ ہے۔ اگر کوئی سبق لیکر بہتری کے کچھ اقدامات کرنے کی واقعی نوبت آگئی تو محکمہ سیاحت اور متعلقہ سرکاری اداروں اور ذمے داران کو بھی سیاحت سے وابستہ کاروبار کی اخلاقیات اور دوسرے لازموں کیلئےکچھ عملاً کرنا پڑیگا۔
گلیات اور اوپر بالائی علاقوں میں برفباری سے گاڑیوں کے پھنس جانے پر ہنگامی امداد اور عارضی شیلٹر بنانے اور سیاحتی مراکز میں کاروں کی مناسب تعداد کے داخلے کی اجازت کا تعین محکمہ سیاحت اور ٹریفک پولیس کی مشترکہ ذمہ داری ہو اور ان میں مستقل نوعیت کا رابطہ لازم قرار دیا جائے۔ اتنے بڑے المیے میں بھی پنجاب کے وزیر سیاحت میڈیا میں کہیں نظر نہیں آئے۔
کمیونیکیشن ڈیزاسٹر کی بڑی شکل یہ بھی تھی کہ ہر متاثر سیاح کے پاس موبائل تھے، وہ گھروں سے رابطے میں تھے، گھر والے متعلقہ اداروں تک ممکنہ حد تک رابطے کی بےسود کوشش کرتے رہے۔ مری کے متعلقہ اداروں اور منتخب نمائندوں اور صورتحال سے آگاہ شہریوں نے فون پر رابطے کرکے، پہاڑی دامن اور وادیوں میں آباد مری کے مقامی شہریوں سے رابطے کرکے انہیں مدد کیلئے اوپر پھنسی کاروں میں موجود سیاحوں کو نکالنے کیلئے کوئی کوششیں نہیں کیں۔ وگرنہ نوجوان اندھیری رات میں آ کر بھی کافی مدد کر سکتے تھے۔
یہ بہت بڑا کمیونیکیشن ڈیزاسٹر ہے جو ہمیں بحرانوں اور مشکلات میں موبائل فون کے پر اثر استعمال کا سبق دیتا ہے۔ یہ اپنی جگہ بڑا ابلاغی المیہ ہے کہ پھنسے سیاحوں کے دور گھروں میں رابطے ہو رہے تھے لیکن گھر والے کسی امدادی محکمے سے رابطے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ وزیر اطلاعات اب زخموں پر نمک نہ چھڑکیں اور بولنے سے پہلے محتاط اندازہ لگائیں کہ انکے کہے کا کیا کیا اثر عوام پر ہوگا کیونکہ عوام انکے مخاطب ہوتے ہیں۔ وزارتِ اطلاعات ترنگ سے نہیں بہت ذمے داری سے ہی اپنے قیام کا جواز رکھتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔