12 جنوری ، 2022
آج سے چند سال پہلے میں نے مری میں موت کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ یہ غالباً دسمبر کا مہینہ تھا، میں اپنی اہلیہ، بچیوں اور کزن کے ساتھ تھا جب ایک رات ہم سخت سردی میں کافی پینے باہر نکلے تو راستے میں گاڑی پھنس گئی اور آگے گہری کھائی کی طرف جانے لگی۔
ڈھلان بھی تھی اور پھسلن بھی، سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے روکیں کہ اچانک کہیں سے ایک شخص ہاتھ میں لاٹھی لیے گزرا اور میرے کزن کے قریب آکر کہا ’’بس ذرا گاڑی یوں کرلیں سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔ ہم نے ایساہی کیا اور بات بن گئی، میں اُن صاحب کا شکریہ ادا کرنے کے لیے پلٹا تو وہ دور دور تک کہیں نظر نہ آئے۔ میں آج تک یہ واقعہ نہیں بھولا۔
اُس وقت برف ضرور پڑی ہوئی تھی مگر صورتحال اتنی خراب نہیں تھی۔ سانحہ مری ہوا تو مجھے یہ واقعہ یاد آگیا۔ سوچتا ہوں کہ کیا قیامت گزری ہوگی اُن ہزاروں خاندانوں پر، اُن کے پیاروں پر اُن خاندانوں پر جنہوں نے اپنے سامنے اپنے بچوں کو اس برفانی طوفان کے نیچے دبا دیکھا اور پھر وہ بھی اس دُنیا سے رُخصت ہوگئے۔ اِن گنت سوالات چھوڑ کر۔ اُس ASI نوید کی گفتگو اُس کا آخری پیغام بن گئی یا یوں کہیں کہ وہ سانحہ کی اوپن FIR ہے جو ہونا تھا ہوگیا اب نوٹس لیا گیا ہے۔ تحقیقات بھی ہوں گی، اور ممکن ہے کچھ افسروں کو معطل بھی کیا جائے، معاوضہ بھی ادا ہو جائے اور پھر ہم انتظار کریں گے کسی اور حادثے کا کسی اور سانحے کا۔
افسوس تو یہ ہے کہ ہمیں افسوس بھی نہیں کرنا آتا سبق تو خیر ہم ان حادثات سے کیا سیکھیں گے ورنہ 2005کے زلزلے کے بعد آج کم از کم اسلام آباد کی عمارتیں تو کسی آنے والے خطرات سے محفوظ بنائی جاتیں۔ ذمہ داری یہاں کون لیتا ہے جو ذمہ دار ہوتے ہیں وہ اپنے ماتحتوں پر ذمہ دار ی ڈال کر معاملے کو رفع دفع کر دیتے ہیں۔ چلیں یہ سب نہ بھی کریں تو کم از کم ایسے بے ڈھنگے بیانات سے تو گریز کریں جن سے ایسا محسوس ہوتا ہے زخموں پر مرہم نہیں نمک پاشی کی جا رہی ہے۔
آپ کو اب یہ بات کون سمجھائے کیونکہ مغرب کو آپ ہم سے بہتر سمجھتے ہیں۔مری ہو یا نتھیا گلی یہاں تو موجودہ وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اکثر آتے رہے ہیں کبھی کبھی اجلاس بھی ہو جاتے ہیں۔ کیا کبھی یہ خیال بھی آیا کہ یہ علاقے کتنے بے ڈھنگے انداز میں ترقی کر رہے ہیں؟ کیا یہاں لاکھوں افراد کی گنجائش بھی ہے؟ کیا 23 لوگوں کی ہلاکت کا انتظار کر رہے تھے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارمری کو ضلع بنانے کے لیے۔ مبارک ہو دو تھانوں کا اضافہ بھی کردیا گیا۔
ابھی تو برف پگھلنے میں کچھ دیر ہے تب شاید پتا چل سکے کچھ گمنام کہانیوں کا کس پر یہ وقت کیسے بیتا۔ عین ممکن ہے سارا سچ سامنے بھی نہ آسکے۔ ابھی تو وہ ہزاروں افراد جو اپنی اپنی گاڑیاں چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ واپس آگئے ہوں گے یا جارہے ہوں گے گاڑیوں کو واپس لینے۔ اِس سانحہ کی تحقیق بہرحال ہونی چاہئے کہ یہ قیمتی جانیں محض برفانی طوفان کا نتیجہ تھیں یا حکومت اور انتظامیہ کی غفلت اور نااہلی کا۔ تحقیق اگر نوکر شاہی کے انداز میں ہوئی تو سزائیں بھی ہلکی پھلکی ہوں گی ورنہ اصولی طور پر تو بات انتہا درجے کی نااہلی کی ہے کہ ایسے ادارے ہوتے ہوئے بھی جن کا کام ہی ایسی صورتحال سے نمٹنا ہے وہ کہاں تھے؟ جو خواتین و حضرات اُس بھیانک رات وہاں تھے اور اپنے اپنے موبائل فون سے رابطے کرکے مدد طلب کر رہے تھے انہیں بھی تحقیق کا حصہ بنایا جائے۔ آخر ’’اسنو کلیئرنگ ڈپارٹمنٹ‘‘ جو بنایا ہی اس مقصد کے لیے گیا تھا اُس میں پچھلے چند سال میں کتنی بہتری آئی ہے جب الرٹ جاری ہوا تو اس کے بعد کیا انتظامات کئے گئے؟
سانحہ مری نے بہت سے پُرانے سانحات کی یاد تازہ کردی۔ یہاں تو ہر دوسرے مہینہ ایک ٹرین حادثہ ہوتا ہے۔ تحقیق بھی ہوتی ہے اگر صورتحال میں کچھ بہتری آئی ہو توضرور بتایئے گا۔ حالیہ تاریخ میں 2005کے زلزلے سے بڑا واقعہ تو کوئی نہیں تھا کیا اُس وقت یہ فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ اسلام آباد سمیت اُن تمام علاقوں میں جہاں زلزلے آسکتے ہیں عمارتیں محفوظ بنائی جائیں گی۔
کیا سی ڈی اے یہ دعویٰ کرسکتا ہے مری تو آباد ہی ایسے زون میں ہے وہ تو بات پھر کئی سال پرانی ہے یہاں تو ہر سال بارشیں تباہی مچاتی ہیں اور کچھ نہیں تو بلوچستان میں چند ہفتوں میں ہونے والی تباہی دیکھ لیں میں نے تو ہر ایسی تباہی کے بعد کروڑوں، اربوں کے فنڈز جاری ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیکھا۔ بیوروکریٹس کی آنکھوں میں ’’چمک‘‘ اور پھر اُن کو صرف اپنے اپنے گھر محفوظ کرتے دیکھا ہے۔مری کئی لحاظ سے سیاست کا بہت بڑا مرکز بن گیا ہے۔
ایک مری ہی کیا ایسے بے شمار علاقے ہیں، سوات سے کاغان تک مگر کوئی ایک ایسی جگہ بتائیں جہاں اس طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے انتظام موجود ہو؟ ہم تو اپنے ملک میں اچھے ’’پبلک ٹوائلٹ‘‘ نہیں بنا پائے باقی سہولتیں تو رہنے دیں۔ پاکستان سیاحت کے لیے دنیا کے بہترین ممالک میں شامل ہوسکتا ہے مگر ہم اسے سانحات کے لیے بنا رہے ہیں سیاحوں کو بھی بس اپنی مدد آپ کے اصول پر چلنا چاہئے۔
کہتے ہیں آگ اور پانی کی موت سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ مگر جس طرح لوگ منوں برف تلے دب کرمرے وہ گاڑیاں ہی دب گئیں جن میں وہ موجود تھے اور اپنے سامنے خود کو اہل خانہ کے ساتھ مرتا دیکھ رہے تھے، مدد کو پکار رہے تھے وہی دل دہلانے کے لیے کافی ہے۔مگر اطمینان رکھیں ہم جلد سانحہ مری کو بھول جائیں گے کیونکہ ابھی سیاست کرنی ہے حکومت بچانے اور گرانےکیلئے۔
ایسے میں کون یاد رکھے گا، ASIنوید کا وہ آخری پیغام ’’کچھ کرو بھائی ہم پھنس گئے ہیں‘‘۔ دنیا بھر میں زلزلے بھی آتے ہیں، سونامی بھی تباہی مچاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ ان سے سبق سیکھتے ہیں۔ خود ذمہ داری لیتے ہیں کسی پر ڈالتے نہیں جبکہ ہم انتظار کرتے ہیں آنے والے کسی اور حادثے کسی اور سانحے کا۔ ان سب سے تعزیت جو مری اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھومنے گئے تھے مرنے نہیں مگرہم نے اُن کو مار ڈالا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔