13 جنوری ، 2022
کسی بھی قوم نے اگر آگے بڑھنا ہے تو شرط اول یہ ہے کہ وہ نان ایشوز میں الجھنے کی بجائے اپنے اصل ایشوز کو لیکر پالیسیاں بنائے اور عمل پیرا ہو ، نعرے بازی کی بجائے ٹھوس لائحہ عمل کا تعین کرے۔ اپنے وژن یا پروگرام کی مطابقت میں نعرے لگانا بری چیز نہیں لیکن اگر ٹارگٹ محض عام آدمی کو لبھانے کے لیے جذباتی سلوگنز کا استعمال ہو تو اس کی تحسین کیسے کی جاسکتی ہے ؟
یہاں چونکہ بالعموم شعور کی بجائے جذباتیت کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے اس لیے ہمارے ہیروز بھی ایسے لوگ ہی قرار پاتے ہیں جو جذباتی طور پر قوم کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرتے ہیں ،درویش نے دو دہائیاں قبل ایک مضمون تحریر کیا تھا کہ ہماری قوم کو روزِ اول سے دو بظاہر خوبصورت مگر جذباتی نعروں نے بہت نقصان پہنچایا ہے جن میں سے ایک اسلامائزیشن کا نعرہ ہے اور دوسرا ہے کرپشن کے خلاف احتساب کا نعرہ۔بظاہر دونوں بڑے شاندار اور دلربا سلوگنز ہیں اپنے عقیدے پر جان چھڑکنے والا کون سا انسان ہے جو اس کی ترویج و سربلندی کا خواستگار نہ ہو اور قومی تعمیرو ترقی کا کون سا ایسا آرزومند ہے جو کرپشن اور لوٹ مار کا خاتمہ نہ چاہتا ہو ؟
حالت آج بھی یہی ہے کہ ’’ریاست مدینہ ‘‘ کے خوشنما نعروں کے ساتھ ساتھ اس بات پر زور ہے کہ ہم کرپشن کے خلاف احتسابی جنگ لڑ رہے ہیں، پاکستانیو! میرے سوا باقی سب چور لٹیرے ہیں میں انہیں نہیں چھوڑوں گا، کسی کو بھاگنے نہیں دوں گا بلکہ بھاگے ہوئوں کو واپس لائوں گا اور قوم کی لوٹی ہوئی ساری رقوم برآمد کروائوں گا ۔ تازہ ارشاد ہے کہ مدینہ کی ریاست دنیا کی تاریخ کا سب سے کامیاب ماڈل تھا جب کرپشن کو ختم کیا جائے تو قوم کو فائدہ ہوتا ہے پچیس سال سے کہہ رہا ہوں کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے ۔سابق حکمرانوں نے سڑکوں کا ایک ہزار ارب چرا لیا، جب سوال کیا جاتا ہے کہ حضورآپ ساڑھے تین سال سے برسرِاقتدار ہیں، سبھی آپ کے ساتھ ہیںتو پھر بشمول میاں صاحب کسی بھی سیاست دان کے خلاف آپ ایک دھیلے کی کرپشن کیوںثابت نہیں کر سکے تو جواب ملتا ہے کہ کیا کریں وہ بڑے سمجھ دار لوگ تھے، انہوں نے اپنے خلاف کہیں کوئی ثبوت نہیں چھوڑا ۔
اس پر اگلا فوری سوال یہ آنا بنتا ہے کہ جب آپ کے پاس کسی کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ہے تو معزز سیاست دانوں کے خلاف یہ نفرت انگیز واویلا کس چکر میں کر رہے ہیں ؟ ریاست مدینہ کا نام جپنے والے کو کیا شرم نہیں آنی چاہئے کہ بلا ثبوت اگر وہ کسی پر الزام لگاتا ہے تو ایسا شخص قذف کا مرتکب قرار پاتا ہے اب آپ خود ہی کائونٹ فرمالیں کہ آپ کے خلاف ریاست مدینہ میں رجم کے علاوہ کتنے کوڑے سزا بنتی ہے ۔
فارن فنڈنگ کیس کے حوالےسے جو حقائق قوم کے سامنے آچکے ہیں کرپشن کا واویلا کرنے والوں کو کیا اس آئینے میں نہیں دیکھنا چاہئے ؟ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ پاناما میں کچھ ثابت نہ ہونے پر اقاما کےتحت محض اس الزام پر کہ بیٹے سے جو تنخواہ لی ہی نہیں گئی اسے ظاہر نہ کرنے پر وزیر اعظم کو رخصت کیا جا سکتا ہے تو اس کے متعلق کیا خیال ہے جس کے حسابات میںکروڑوں کی خوردبرد پوری قوم کے سامنے ہے۔ یہ انصاف کا کیسا معیار ہے کہ پاناما کیس میں چار سو لوگوں کے نام آئے تھے مگر اتنے برسوں میں سوائے ایک کے کسی کی نشاندہی ہوئی نہ انگلی اٹھائی گئی یہی صورتحال پینڈورا پیپرز کی بھی رہی تب احتساب کی شتابی تھی تو پھر فارن فنڈنگ کیس میں کیسے سات سال بیت گئے؟ تب کہا جا رہا تھا کہ جس کے خلاف الزام ہو شفاف احتساب کیلئے اسے اپنے عہدے پر رہنے کا حق حاصل نہیں آج یہ اصول کہاں گیا ؟ اگر کسی پارٹی یا تنظیم کیلئے فارن کمپنی سے عطیات لینا جرم ہے تو پھر اس کے مرتکب ہر پارٹی لیڈر کو کیوں قانون کے شکنجے میں نہیں آنا چاہئے؟
لہٰذا کیا یہ بہتر نہیں کہ اپنے ذیلی مقاصد کے لیے دوسروں کے خلاف لاف زنی کرنے کی بجائے تہذیب و شائستگی اور متانت و وقار کے ساتھ ساری قومی قیادت کا احترام پیش نظر رکھا جائے ۔سچائی تو یہ ہے کہ کسی کو زیادہ پارسائی کے نعرے لگاتے دیکھیںتو سمجھ لیں کہ دھوکے بازی کا کوئی کرشمہ ہونے والا ہے صلاحیتوں سے عاری نااہل لوگ بالعموم انہی دو نعروں کا سہارا لیتے پائے جاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کے اصل ایشوز غربت، مہنگائی، جہالت، نفرت اور جنونیت کا خاتمہ کرنے کیلئے آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کی سربلندی کے ذریعے انسانی دکھوں کا مداوا کیا جائے۔قومی سطح پر ایسے شفاف سسٹم کا اہتمام کیا جائے جس میں کرپشن کے مواقع کم سے کم تر ہوتے چلے جائیں نان ایشوز کو چھوڑ کر ایشوز میں ترجیحات کا ایسا تعین ہو جس سے سسٹم میں مضبوطی آئے اور شخصی صوابدید کی اپروچ ختم ہو ۔کیا آئین شکنی سے بڑی کرپشن بھی کوئی ہو سکتی ہے ؟اس کے خلاف تو آپ نے کبھی لب کشائی نہیں فرمائی، مذہبی و عسکری بے اصولی و بے ایمانی کے خلاف تو سپریم ادارے بھی ریمارکس سے احتراز فرماتے ہیں لہٰذا بہتر ہے کہ لاحاصل نعرے بازی کی بجائے ایشوز پر بات کی جائے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔