14 جنوری ، 2022
حکومت کی طرف سے ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی سلامتی پالیسی جاری کردی گئی ہے جبکہ پالیسی میں دفاع ، داخلہ، خارجہ اور معیشت جیسے شعبو ں پر مستقبل کا تصوردینے کی کوشش کی گئی ہے۔
قومی سلامتی پالیسی میں سی پیک سے متعلق منصوبوں میں دیگر ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے۔ نئی پالیسی کے مطابق کشمیر بدستور پاکستان کی قومی سلامتی کا اہم مفاد رہے گا، بھارت کے ساتھ امن کے خواہاں اور مسئلہ کشمیر کا حل تعلقات کا مرکزی نکتہ رہےگا۔
پالیسی میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں ہندوتوا سیاست شدید تشویش ناک اور پاکستان کی سکیورٹی پر اثرانداز ہے جبکہ ایران کے ساتھ انٹیلی جینس تبادلے، سرحدی علاقوں کی پیٹرولنگ سے باہمی تعلقات بہترہوں گے۔
امریکا کے حوالے سے پالیسی میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کے ساتھ پاکستان سرمایہ کاری، انرجی، انسداد دہشت گردی میں تعاون کاخواہاں ہے، پاکستان امریکا کے ساتھ سکیورٹی و انٹیلی جنس کے شعبوں میں تعاون کا خواہاں رہے گا۔
پالیسی میں روس کے ساتھ انرجی ، دفاعی تعاون اور سرمایہ کاری کے حوالے سے شراکت داری ازسر نوترتیب دی جا رہی ہے۔
پالیسی کے مطابق افغانستان، وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ معاشی رابطے کا دروازہ ہے اور پاکستان افغانستان میں امن کا حامی ہے۔
قومی سلامتی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ مذہب و لسانیت کی بنیاد پر انتہا پسندی معاشرے کو درپیش بڑا چیلنج ہے۔
قومی سلامتی پالیسی میں دہشت گردی قومی سلامتی اور ہم آہنگی کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دی گئی ہے جبکہ پالیسی میں معاشی تحفظ کے ذریعے روایتی اور انسانی سکیورٹی کو جوڑا گیا ہے۔
پالیسی کے مطابق قومی ذرائع آمدن بڑھا کر روایتی اور انسانی سکیورٹی پر تقسیم کرنے کا نظریہ اپنایا گیا، جنگ مسلط کی تو دفاع کیلئے قومی طاقت کے تمام عناصر کے ساتھ بھرپور جواب دیا جائے گا، پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کاہرقیمت اور ہر صورت میں تحفظ کیا جائے گا۔
قومی سلامتی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ ملکی دفاع کیلئے کم سے کم جوہری صلاحیت کو حد درجہ برقرار رکھا جائےگا جبکہ تصفیہ طلب مسائل اور سرحدی مسائل بالخصوص ایل او سی پرتوجہ مرکوز کی جائے گی اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے مغربی سرحد پر باڑ کی تنصیب پر توجہ مرکوز ہوگی۔
پالیسی کے مطابق جعلی اطلاعات اور اثرانداز ہونے کیلئے بیرونی آپریشنز کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جائے گا۔
قومی سلامتی پالیسی میں قومی معاشی ذرائع آمدن بڑھا کر روایتی سکیورٹی اور انسانی تحفظ کو وسائل کی زیادہ تقسیم کا نظریہ متعارف کرایا گیا ہے تاہم ترقیاتی اور دفاعی بجٹ میں عدم توازن دور کرنے کا ذکر نہیں۔
دوسری جانب اسلام آباد میں قومی سلامتی پالیسی کے اجرا کی تقریب ہوئی جس میں وزیراعظم عمران خان، وفاقی کابینہ کے ارکان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور مسلح افواج کے سربراہان شریک ہوئے۔
تقریب سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھاکہ مجبوری کی حالت میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے، شرائط ماننا پڑتی ہیں، شرائط ماننے کی وجہ سے لوگوں پربوجھ ڈالنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ آئی ایم ایف کی شرائط مانتے ہیں تو سکیورٹی متاثرہوتی ہے۔
قومی سلامتی پالیسی سے متعلق وزیراعظم کا کہنا تھاکہ بڑی محنت سے متفقہ قومی دستاویزتیار کی گئیں، پہلے کبھی بحیثیت قوم ترقی کا تصور نہیں دیا گیا، قومی سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ بلوچستان اور قبائلی علاقوں پر زیادہ توجہ دیں۔
اُدھر قومی سلامتی پالیسی کے اجرا کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نےکہاکہ قومی سلامتی کےتمام پہلوؤں پرپالیسی ایک زبردست اقدام ہے، ملٹری سکیورٹی قومی سلامتی کا ایک پہلو ہے، یہ دستاویز قومی سلامتی کو یقینی بنانے میں مددگار ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق بہت باتیں کی گئیں، ہم نے پوری دنیا کی پالیسیاں دیکھی ہیں، پاکستان کی تمام پالیسیاں اعلیٰ معیارکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں قومی سلامتی پربہت بحث ہوئی، پاکستان کے تمام شعبوں کی بہت اچھی پالیسیاں ہیں،جوبنتی ہیں اور اپڈیٹ ہوتی ہیں۔
معید یوسف کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی پالیسی کا اوریجنل ڈاکومنٹ کلاسیفائیڈ ہے لیکن وزیراعظم نے کہا تھا کہ پالیسی کوپبلک ہونا چاہیے۔