بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

ویکسین نہ لگوانے والے جوکووچ کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوگیا تھا کہ دور حاضر کی سب سے ضروری شرط پوری کیے بغیر انہیں اس ملک میں داخلے کی اجازت مل چکی تھی جہاں دنیا کا سخت ترین کورونا قانون لاگو ہے— فوٹو: اے ایف پی
ویکسین نہ لگوانے والے جوکووچ کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوگیا تھا کہ دور حاضر کی سب سے ضروری شرط پوری کیے بغیر انہیں اس ملک میں داخلے کی اجازت مل چکی تھی جہاں دنیا کا سخت ترین کورونا قانون لاگو ہے— فوٹو: اے ایف پی

کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ برائی، ظلم ، زیادتی یا نا انصافی کیخلاف کچھ لوگ آواز کیوں اُٹھاتے ہیں اور کچھ خاموش کیوں رہتے ہیں؟

اس حوالے سے کسی بھی معاشرے میں کئی طرح کی ذہنیت رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں۔پہلی دو اقسام ان لوگوں کی ہے جو آواز نہیں اٹھاتے۔ ان میں ایک قسم ایسے لوگوں کی ہے جو اس لیے خاموش رہتے ہیں کیوں کہ وہ اس سے براہ راست متاثر نہیں ہو رہے ہوتے لہٰذا کان میں تیل ڈال کر اپنے کام میں مگن ہوتے ہیں۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ظلم و زیادتی سے براہ راست متاثر تو ہورہے ہوتے ہیں لیکن آواز نہیں اٹھاتے، وہ خود کو کمزور سمجھتے ہیں یا پھر مزید نقصان کے ڈر سے خاموش رہتے ہیں۔

جو آواز نہیں اٹھاتے ان لوگوں پر مشتمل ایک قِسم ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو دراصل کہیں نہ کہیں خود بھی برائی، ظلم، زیادتی یا نا انصافی کے مرتکب ہوتے ہیں لہٰذا یہ سوچ کر خاموش رہتے ہیں کہ بات نکلی تو دور تک جائے گی اور ان کی شرافت کا نقاب بھی ہٹ جائے گا۔

اب بات کرتے ہیں مزاحمت کرنے والوں کی۔ ان میں ایک قِسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو کسی برائی، ظلم ، زیادتی اور نا انصافی سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں یا جلد یا بہ دیر متاثر ہوسکتے ہیں، چونکہ ان ہی پر ظلم ہو رہا ہوتا ہے یا مستقبل میں ہونے کا امکان ہوتا ہے تو ان کا آواز اٹھانا تو بنتا ہی ہے۔

ایک اور قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو شروع میں تو ظلم و نا انصافی کو خاموشی سے سہتے ہیں لیکن جیسے ہی کسی اور کو وہ چیز ملتی ہے جو ان کا بھی حق تھا تو وہ بول اٹھتے ہیں۔ یعنی ایسے لوگ اس وقت تک خاموش رہتے ہیں جب تک اپنے سامنے اپنے ہی جیسے کسی شخص کو کوئی خاص رعایت ملتی ہوئی نہ دیکھ لیں۔

معاشرے کی برائیوں کے خلاف بولنے والے افراد کی ایک قسم ایسے لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو نہ تو براہ راست اس سے متاثر ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے پھر بھی وہ صدا بلند کرتے ہیں، ایسا وہ اپنے کسی فائدے کیلئے نہیں بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر اسے غلط سمجھتے ہیں۔ یہ کسی بھی معاشرے کے عظیم لوگ ہوتے ہیں،، لیکن وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟

شاید وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سب کو برابر کے حقوق ملنے چاہئیں، کوئی پسند نا پسند نہیں ہونی چاہیے، معاشرے میں عدل و انصاف، جزا و سزا کا نظام ہونا چاہیے اور جب وہ اپنے اطراف ایسا نہیں دیکھتے تو ان کے اندر مزاحمت کی لہر اٹھتی ہے اور وہ ایسا ماحول قائم کرنے کیلئے جدوجہد شروع کر دیتے ہیں جو ان کے نظریات سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس مقصد کے حصول کیلئے وہ معاشرے کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہیں تاکہ انہیں ٹھیک کیا جاسکے۔ ایسے لوگ معاشرے میں زیادہ پسند نہیں کیے جاتے (کیوں کہ اکثریت مخالف گروپ سے تعلق رکھنے والوں کی ہوتی ہے)۔

ایسا ہی کچھ آواز نہ اٹھانے والے وہ افراد بھی کرتے ہیں جو خود کسی برائی، ظلم و زیادتی اور ناانصافی میں ملوث ہوتے ہیں۔ وہ استحصال پر مبنی اپنا نظام بچانے کیلئے خامیوں پر پردہ ڈالتے ہیں، اگر کوئی اس کی نشاندہی کرے تو پہلے اسے خاموش کراتے ہیں، خاموش نہ ہو تو ڈرانے دھمکانے اور انتقامی کارروائی تک ہر حربہ آزماتے ہیں جن میں سے کوئی ایک کام کر ہی جاتا ہے۔

کہتے ہیں دنیا میں برائی برے لوگوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اچھے لوگوں کے خاموش رہنے کی وجہ سے ہے۔ صرف ایک شخص کے آواز اٹھانے سے کون سی تبدیلی آجانی ہے؟ یہ سوچ کر اچھے لوگوں کی اکثریت خاموش رہتی ہے اور برے لوگوں کی اقلیت غالب رہتی ہے۔ مفاد پرست ٹولہ فائدے اٹھاتا رہتا ہے اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے اپنا خون جلاتے رہتے ہیں لیکن مزاحمت کی طرف کم ہی جاتے ہیں اور یہی عدل و انصاف سے عاری کسی معاشرے کے پروان چڑھنے کی بنیادی وجہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنا حق مانگنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

آواز اٹھانے سے کیا کچھ ہوسکتا ہے؟

اگر آپ کھیلوں سے شغف رکھتے ہیں تو نوواک جوکووچ کا نام تو سنا ہی ہوگا، وہی جس کا تعلق سربیا سے ہے، ٹینس کھیلتا ہے، دنیا کا نمبر ون ٹینس کھلاڑی ہے— فوٹو: اے ایف پی
اگر آپ کھیلوں سے شغف رکھتے ہیں تو نوواک جوکووچ کا نام تو سنا ہی ہوگا، وہی جس کا تعلق سربیا سے ہے، ٹینس کھیلتا ہے، دنیا کا نمبر ون ٹینس کھلاڑی ہے— فوٹو: اے ایف پی

اگر آپ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ آپ کے آواز اٹھانے سے کیا ہوگا؟ کچھ نہیں بدلے گا۔۔ تو ذرا ٹھہریے۔۔۔ آئیے آپ کو حال ہی میں دنیا کی ایک معروف شخصیت کے ساتھ پیش آئے واقعے سے آگاہ کرتے ہیں۔

اگر آپ کھیلوں سے شغف رکھتے ہیں تو نوواک جوکووچ کا نام تو سنا ہی ہوگا، وہی جس کا تعلق سربیا سے ہے، ٹینس کھیلتا ہے، دنیا کا نمبر ون ٹینس کھلاڑی ہے، مزید ایک گرینڈ سلم جیت کر دنیا کا کامیاب ترین ٹینس پلیئر بننے ہی والا تھا کہ بے چارے کو سال کے پہلے گرینڈ سلم ٹورنامنٹ آسٹریلین اوپن میں شرکت سے پہلے ہی آسٹریلیا سے بے آبرو ہوکر نکلنا پڑا اور اس کی وجہ؟ لوگوں کا آواز اٹھانا۔۔ جی ہاں۔

معاملہ کیا تھا؟

تو جناب معاملہ کچھ یوں ہے کہ کورونا نے دنیا پر یلغار کی، لاکھوں لوگ بیمار ہوئے، ادویہ ساز کمپنیوں نے ویکسین کی تیاری شروع کردی لیکن اسی اثناء میں کورونا کو لے کر سازشی نظریات جنم لے چکے تھے، لوگ دو حصوں میں تقیسم ہوچکے تھے۔

لاک ڈاؤن ہوا، سفری پابندیاں عائد ہوئیں اور پھر کمپنیاں ویکسین سامنے لے آئیں۔ دنیا بھر میں ایک طبقہ ویکسین کے حق میں اور دوسرا اس کے خلاف کھڑا ہوگیا۔ کچھ لوگ ویکسین کیخلاف تو نہیں تھے لیکن سفر و دیگر سرگرمیوں کیلئے ویکسین کو لازمی قرار دینے کے بھی حق میں نہیں تھے۔ جوکووچ بھی ان میں سے ایک تھے۔

اپریل 2020میں جب کورونا کی ویکسین بنی بھی نہیں تھی تب دیگر سربین ایتھلیٹس کے ہمراہ فیس بک لائیو کے دوران گفتگو کرتے ہوئے جوکووچ نے کہا تھا کہ وہ ویکسی نیشن کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں ذاتی طور پر ویکسی نیشن کیخلاف ہوں، میں پسند نہیں کروں گا کہ سفر کی اجازت کے بدلے کوئی مجھ سے اس معاملے میں زبردستی کرے، لیکن اگر یہ لازمی قرار دے دی گئی تو پھر میں اپنا فیصلہ لوں گا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔‘

اُسی سال جون میں بلکان کے خطے میں ٹینس ٹورنامنٹ میں شرکت کے بعد جوکووچ اور دیگر ٹاپ کھلاڑی کورونا کا شکار ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ٹورنامنٹ کا انعقاد خود جوکووچ نے ہی کیا تھا اور اس وقت بھی کھیلوں سے وابستہ تنظیموں نے ایونٹ میں کورونا سے بچاؤ کے ناکافی اقدامات پر تنقید کی تھی۔

اس ٹورنامنٹ کے بعد بھی جوکووچ نہ سنبھلے بلکہ اپنے نظریے پر مزید پختہ ہوگئے۔ اسی طرح یو ایس اوپن کا وقت آگیا۔ اگست 2021 میں ہونے والے یو ایس اوپن میں شائقین کیلئے لازمی تھا کہ وہ ویکسی نیشن کا ثبوت پیش کیے بغیر ٹینس کورٹ میں داخل نہیں ہوسکتے البتہ کھلاڑیوں کیلئے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی تھی لہٰذا جوکووچ بغیر ویکسین لگوائے دیگر کھلاڑیوں کی طرح اس ایونٹ میں شریک ہوگئے۔

اگر اس وقت امریکی شہریوں نے آواز اٹھائی ہوتی تو امتیازی سلوک کا یہ معاملہ یہیں رک جاتا ۔۔۔بہر حال۔۔

اکتوبر 2021 میں آسٹریلیا کی وفاقی اور ریاستی حکومتوں نے فیصلہ دیا کہ جب آسٹریلوی شہریوں پر کورونا کے حوالے سے دنیا کی سخت ترین پابندیاں ہیں تو پھر یہاں آکر کھیلنے والے ایتھلیٹس کو بھی استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا لہٰذا آسٹریلیا میں کسی بھی ایونٹ میں شرکت کرنے والے ایتھلیٹس کیلئے ویکسین لگانا ضروری ہوگا۔اس حوالے سے جب آسٹریلین اوپن میں جوکووچ کی شمولیت سے متعلق وفاقی امیگریشن منسٹر ایلکس ہاک سے پوچھا گیا تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ مکمل ویکسین شدہ کھلاڑیوں کو ہی آسٹریلین اوپن میں شرکت کی اجازت دی جائے گی۔

دسمبر 2021 میں آسٹریلین اوپن کی انٹری لسٹ جاری کی گئی جس میں توقع کے عین مطابق عالمی نمبر ایک ٹینس پلیئر نوواک جوکووچ کا نام بھی شامل تھا— فوٹو: اے ایف پی
دسمبر 2021 میں آسٹریلین اوپن کی انٹری لسٹ جاری کی گئی جس میں توقع کے عین مطابق عالمی نمبر ایک ٹینس پلیئر نوواک جوکووچ کا نام بھی شامل تھا— فوٹو: اے ایف پی

دسمبر 2021 میں آسٹریلین اوپن کی انٹری لسٹ جاری کی گئی جس میں توقع کے عین مطابق عالمی نمبر ایک ٹینس پلیئر نوواک جوکووچ کا نام بھی شامل تھا۔ آسٹریلین اوپن کے منتظمین نے جوکووچ کا نام شامل کردیا حالانکہ اس وقت جوکووچ کی ویکسی نیشن اور طبی بنیادوں پر استثنیٰ کا اسٹیٹس غیر واضح تھا۔

حیران کن طور پر جنوری 2022 میں آسٹریلوی ٹینس ایسوسی ایشن نے بھی جوکووچ کو طبی بنیادوں پر ویکسین لگانے سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے ٹورنامنٹ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ اب ویکسین نہ لگوانے والے جوکووچ کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوگیا کہ دور حاضر کی سب سے ضروری شرط پوری کیے بغیر انہیں اس ملک میں داخلے کی اجازت مل چکی تھی جہاں دنیا کا سخت ترین کورونا قانون لاگو ہے۔

پھر کیا تھا جوکووچ نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور فاتحانہ انداز میں اپنے مداحوں کو بتایا کہ وہ آسٹریلین اوپن میں شرکت کریں گے کیوں کہ انہیں طبی بنیادوں پر استثنیٰ مل گیا ہے۔ٹینس آسٹریلیا کہتی ہے کہ وکٹورین حکومت اور ٹینس ایسوسی ایشن کے نامزد کردہ ڈاکٹرز کی ٹیم نے 25 سے زائد ایسی درخواستوں کا جائزہ لیا جنہوں نے طبی بنیادوں پر ویکسین لگوائے بغیر داخلے کی اجازت مانگی تھی اور پینل کو معلوم نہیں تھا کہ کونسی درخواست جوکووچ کی ہے کیوں کہ اس میں کسی کا نام، عمر یا قومیت درج نہیں تھی۔البتہ ٹینس آسٹریلیا اور جوکووچ میں سے کسی نے یہ نہیں بتایا کہ استثنیٰ کس طبی بنیاد پر دیا گیا البتہ عام تاثر یہ ہے کہ جوکووچ کورونا سے متاثر ہوچکے تھے اور ان کے جسم میں ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز موجود تھیں جس کی وجہ سے استثنیٰ دیا گیا۔

اپنوں پہ ستم اوروں پہ کرم

جوکووچ کا خیال تھا کہ اب ساری رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں لہٰذا وہ آسٹریلیا کے لیے روانہ ہوگئے لیکن آسٹریلیا میں عوام نے احتجاج شروع کردیا— فوٹو: اے ایف پی
جوکووچ کا خیال تھا کہ اب ساری رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں لہٰذا وہ آسٹریلیا کے لیے روانہ ہوگئے لیکن آسٹریلیا میں عوام نے احتجاج شروع کردیا— فوٹو: اے ایف پی

جوکووچ کا خیال تھا کہ اب ساری رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں لہٰذا وہ آسٹریلیا کے لیے روانہ ہوگئے لیکن آسٹریلیا میں عوام نے احتجاج شروع کردیا اور مؤقف اپنایا کہ حکومت نے اپنے شہریوں پر تو سخت کورونا پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، وہ بیرون ملک تو کیا دوسری ریاست کا سفر بھی مشکل سے کرتے ہیں لیکن ایک غیر ویکسین شدہ شخص کو آسٹریلیا میں داخل ہونے کی اجازت دی جارہی ہے۔

دو دن جاری رہنے والے اس احتجاج نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے خود اس بات کی تصدیق کی کہ وفاقی حکومت نے جوکووچ کا ویزا منسوخ کردیا ہے حالانہ جوکووچ اور ان کی ٹیم اس وقت تک میلبورن ائیرپورٹ پہنچ چکے تھے۔

اس کے بعد جوکووچ نے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا، عدالت نے ویزا بحال کردیا لیکن حکومت نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے جوکووچ کا ویزا پھر منسوخ کردیا اور مؤقف اپنایا کہ یہ قدم آسٹریلوی عوام اور ویکسین نہ لگوانے والوں کی حوصلہ شکنی کیلئے ضروری تھا۔

جوکووچ نے پھر عدالت سے رجوع کیا۔ اس بار تین رکنی بینچ بنا جس کا فیصلہ اٹل ہونا تھا اور جسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس پینل نے بھی جوکووچ کو رعایت دینے سے انکار کرتے ہوئے ویزا منسوخ کرنے کا حکومتی فیصلہ برقرار رکھا اور یوں اب تک بغیر ویکسین لگائے مختلف ممالک میں گھومنے والے جوکووچ کو بے آبرو ہوکر آسٹریلیا سے اپنے وطن واپس جانا پڑا۔

اس سارے معاملے کے دوران جوکووچ کی جانب سے ویزا درخواست میں غلط بیانی اور کورونا پازیٹو ہونے کے باوجود اسپورٹس رپورٹر کو انٹرویو دینے جیسے منفی پہلو بھی سامنے آئے اور دنیا نے ان کا نیا چہرہ دیکھا۔

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

ذرا سوچیے ۔۔ اگر جوکووچ کو ملنے والے استثنیٰ کے خلاف آسٹریلیا کے ان چند شہریوں احتجاج نہ کیا ہوتا تو کیا ہوتا؟ جوکووچ شان سے آتے، کروڑوں آسٹریلوی شہریوں کی قانون کی پاسداری کا مذاق اڑا کر آسٹریلین اوپن میں شرکت کرتے اور چلتے بنتے۔جیسے وہ اس سے پہلے کئی ملکوں میں کرچکے تھے۔ آسٹریلوی شہری اپنی حکومت کو کوستے، اپنا خون جلاتے اور پھر دہرا معیار سہتے رہتے۔

اب کم سے کم آسٹریلوی شہریوں کو اس بات کی تسکین تو ہوگئی کہ ان کی حکومت کورونا کے حوالے سے ان پر سختیاں کر رہی ہے تو کیا ہوا اس نے دنیا کے بہترین کھلاڑی کو بھی کوئی رعایت نہیں دی اور واضح پیغام دیا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ اس سارے معاملے میں آسٹریلیا کا وقار بلند ہوا ہے، وہ بلا شبہ ایک اچھی قوم ہے، قوموں کا طرز عمل اور بڑے فیصلے ہی انہیں بلندی پر لے کر جاتے ہیں۔ اپنے ملک میں ہم دیکھتے ہیں کہ ’سب کیلئے ایک قانون’ کا ڈنکا تو خوب بجایا جاتا ہے لیکن عملاً ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔

اپنے ارد گر نظریں دوڑائیں، روزانہ کتنی ہی چیزیں ہماری آنکھوں کے سامنے غلط ہو رہی ہوتی ہیں لیکن ہم خاموش رہتے ہیں، کبھی یہ سوچ کر کہ ہمارا اس سے کیا نقصان، یا ہمیں کیا فائدہ۔۔ لیکن عین اسی وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے نظر انداز کرنے سے برائی، ناانصافی، حق تلفیوں کا یہ دائرہ وسیع ہوتا جائے گا اور ایک دن ہمیں بھی نگل لے گا۔ مثال کے طور پر ہم گھر سے دور کسی سڑک پر موجود ہیں، وہاں کوئی شخص کچرا پھینک دیتا ہے، ہم دیکھتے ہیں لیکن کچھ نہیں کہتے، یہ سوچ کر کہ ہمیں کیا،، کونسی ہمارے ابا جی کی سڑک ہے۔ اسی طرز عمل کی وجہ سے پورا شہر اور پھر ملک کچرے کا ڈھیر بن جاتا ہے۔

تو اگلی بار اگر آپ کے سامنے کچھ غلط ہو تو آنکھیں مت موندھیے، اسے روکیے، یہ مت سوچیے کہ آپ کو اس سے فائدہ ہے یا نقصان، بس غلط سمجھ کر روکیے اور پھر غلط کو روکنے کا یہ دائرہ بھی وسیع ہوگا جس سے پورا شہر، ملک اور پھر دنیا رہنے کیلئے ایک بہتر جگہ بن جائے گی۔

مزید خبریں :