19 جنوری ، 2022
تھی خبرگرم کہ غالب کے اڑیں گے ’’پرزے‘‘… مگر پھر کال آگئی اور تماشہ نہ ہوا۔ ویسے بھی سخت سردیوں میں خاص طور پر اسلام آباد میں گرم خبروں کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کی راہ داریوں میں گرم چائے یا کافی کے ساتھ ’’سیاسی گپ‘‘ سب سے زیادہ باتیں ’’عدم اعتماد‘‘ کی کہ نامعلوم تحریک آرہی ہے یا نہیں۔
’’منی بجٹ‘‘ تو خیر پاس ہونا ہی تھا مگر دلچسپ امر یہ رہا کہ جسے شکست ہوئی اس کے چہر ے پر مسکراہٹ تھی اور جسے فتح حاصل ہوئی وہاں پریشانی نمایاں تھی۔ ایسے میں دور کراچی میں بیٹھا، میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ڈیسک بجانے کے بجائے ’’دو منٹ‘‘ کی خاموشی عوام کو مہنگائی تلے مارنے پر اختیار کی جاتی تو بہتر ہوتا۔
اب کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دونوں طرف ’’حکومت اور اپوزیشن‘‘ اراکین کی سب مشکل ایک نامعلوم کال نے آسان کردی۔ جنہوں نے آستینیں چڑھا لی تھیں اور غصے میں تھے انہوں نے نیچے کرکے بٹن بھی لگا لیے۔
میں پھر سوچ میں پڑ گیا کہ جو سیاست دان ایک کال کے فاصلے پر ہوتے ہیں، وہ سیاست کیا کریں گے۔ اس سلسلے میں دو مزے کے واقعات آپ کو سناتا چلوں۔ یہ غالباً پچھلے سال کی بات ہے جب پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ق) میں کافی کشیدگی چل رہی تھی۔
ایک دن وزیر اعظم عمران خان نے حکمراں اتحاد کے اراکین پارلیمنٹ کو ڈنر کی دعوت دی تو اسی روز ق لیگ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر جمشید چیمہ نے بھی اراکین کو ڈنر پر بلالیا جس میں کچھ اپوزیشن کے لوگوں کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ اتحادیوں میں سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک رکن نے جس سے جامعہ کراچی کے زمانے سے تعلق رہا ہے مجھے فون کیا ’’یار مظہر، یہ بتاؤمعاملہ کتنا گڑبڑ ہے۔ دعوت دونوں طرف سے ہے‘‘۔ میں نے ازراہ مذاق کہا، ’’کال کرکے پوچھ لو دوستوں کو اعتراض تو نہیں‘‘۔ تھوڑی دیر بعد اس کا دوبارہ فون آیا، ’’انہوں نے کہا ہے کہ آپ دونوں جگہ جاسکتے ہیں‘‘۔ میری ہنسی چھوٹ گئی کہ میں نے تو ایک جملہ پھینکا تھا اور اس نے کیچ کرلیا۔
دوسرا قصہ ذرا سنجیدہ سا ہے۔ اور اس کا تعلق بھی بلوچستان سے ہی ہے اور وہ میرا جامعہ کراچی کا ساتھی میر حاصل بزنجو مرحوم تھا۔ اوپر والے کا نام میں نے اس لیے نہیں بتایا کہ اس نے منع کیا تھا۔ بظاہر میر حاصل کو چیئرمین سینیٹ بننے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے تھی اپوزیشن کی واضح اکثریت تھی مگر جس طرح BAP بنی تھی، باپ رے باپ، تو کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ میر حاصل کو ایک روز پہلے فون کیا تو کہنے لگا، ’’یار کچھ نہیں کہہ سکتا کچھ کالوں کی اطلاعات ہیں اور اگر یہ درست ہے تو پھر کیسی جمہوریت اور کہاں کی سیاست‘‘۔
اور پھر… وہ ہار گیا صرف الیکشن ہی نہیں زندگی کی بازی بھی مگر اس روز جو اس نے تقریر کی وہ بہت سوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اب یہ اراکین بھی کیا کریں سردیوں میں ویسے بھی آنکھ دیر سے کھلتی ہے۔لہٰذا سیاسی گپ شپ تک انقلاب کی باتیں ٹھیک مگر ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ لانگ مارچ ہو یا دھرنا، عدم اعتماد کی تحریک ہو یا اعتماد لینا، الیکشن RTS سے ہو EVM سے ایسی کوئی مشین ایجاد نہیں ہوئی جو الیکشن سے پہلے اور بعد میں ’’کالوں‘‘ کو روک سکے۔
جب سیاست نظریات پر ہوتی تھی تو اس وقت موبائل فون نہیں ہوتے تھے مگر اس زمانے میں بھی کام یا تو لینڈ لائن سے چل جاتا تھا یا ’’دوستوں‘‘ کو پیغام دینے کے لیے گھر آنا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں اس طرح کا ہلکا پھلکا احتجاج نہیں ہوتا لانگ مارچ یا دھرنا بلکہ نعرہ ہی ’’لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی نہیں چلے گی‘‘ ہوتا تھا۔ لہٰذا کئی اراکین خود ڈپٹی کمشنر یا کسی دوسرے افسر کو فون کرکے اپنے آپ کو نظربند کرا لیتے تھے۔ مگراس وقت لڑنے والے اور گولی کھانے والے بھی ہوتے تھے اب تو صرف ’’کھانے‘‘ والے ہوتے ہیں جو ایک ’’کال‘‘ کی مار ہیں۔
اب منی بجٹ کے وقت کس کس کو کال گئی اس کا تو علم نہیں البتہ یہ سمجھ آرہی ہے کہ ’’میچ فکس‘‘ تھا مگر پھر بھی جیتنے والوں کے چہرے بتا رہے تھے کہ یہ جیت کہیں آنے والے بلدیاتی الیکشن اور عام انتخابات کی شکست نہ بن جائے شاید اسی لیے پی ٹی آئی کے رکن نور عالم اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک اپنے اپنے انداز میں ’’پھٹ پڑے‘‘۔ جو چپ رہے وہ بھی غالباً وہی کہنا چاہتے تھے جو ان دونوں نے کہا۔
البتہ جب تک ’’کال‘‘ آرہی ہے تب تک سمجھ لیں نہ کوئی ڈھیل دی گئی ہے نہ کوئی ڈیل ہوئی ہے بس اتنا ضرور ہے کہ بات چیت کے دروازے کھلے ہیں اور شاید کسی سطح پر ہو بھی رہی ہو۔ یہاں تبدیلی آنے کے کچھ اشارے ہوا کرتے ہیں۔ بس آپ اتنا سمجھ لیجئے کہ اگر پرندے ایک شاخ سے دوسری پر جانا اور بیٹھنا شروع کردیں تو سمجھ لیں کہ ہوا کا رخ تبدیل ہورہا ہے۔
اب اگر ہر دوسری حکومت کا ساتھ دینے والے اب تک وزیر اعظم عمران خان کا دفاع کرتے پائے جارہے ہیں تو معاملہ ابھی اتنا خراب نہیں ہوا جتنا ہمارے بعض سیاسی اکابرین یا تجزیہ کرنے والے دوست سمجھ رہے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ گھر کے اندر کی آوازیں باہر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ کرکٹ کے مقابلے میں سیاست میں کپتان بھی اپنا ایمپائر چاہئے۔ بس یہی ایک نکتہ ہے جس نے پورے اسلام آباد میں ہر طرح کی افواہوں کا طوفان برپا کیا ہوا ہے۔
رہ گئی بات اپوزیشن کی تو اس کا دارومدار بھی ’’کالوں‘‘ پر ہے۔ عمران کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے تو میاں نواز شریف یہ رسک کبھی نہیں لیں گے کہ وہ مکمل معاملات طے کیے بغیر واپسی کا سفر اختیار کریں۔ ویسے بھی اب تک انہیں اتنی جلدی بھی نہیں۔ پارٹی ان کی متحد ہے اور بھائی بہرحال منتظر ہے کہ مشترکہ اشارہ کب ملتا ہے۔ مگر معاملات اتنے بھی سادہ نہیں اور رکاوٹ صرف عمران نہیں کچھ اپنے بھی ہیں اور بیگانہ بھی۔
دیکھتے ہیں لانگ مارچ ہوتا ہے یا نہیں، مشترکہ اپوزیشن کا ہوگا یا منتشر حزب اختلاف کا۔ وزیر اعظم اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کے سامنے ایک ایسی اپوزیشن کھڑی ہے جس میں الیکشن جیتنے کی صلاحیت تو ہے جو ضمنی اور بلدیاتی الیکشن میں نظر آئی مگر حکومت گرانے کی سکت نہیں کیونکہ چلتی وہ بھی ٹیلیفون کال پر ہی ہے۔ ابھی کپتان کے فون سگنل ایسے خراب نہیں ہوئے کہ… لائن کٹ جائے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔