ایلون مسک دماغی چپ کی انسانی جانچ کے قریب

مسک اور ان کے نیورالنک پارٹنرز نے 2016 میں دماغی چپس تیار کرنے کے لیے کمپنی کی بنیاد رکھی__فوٹو فائل
مسک اور ان کے نیورالنک پارٹنرز نے 2016 میں دماغی چپس تیار کرنے کے لیے کمپنی کی بنیاد رکھی__فوٹو فائل

ارب پتی بزنس مین ایلون مسک کے تعاون سے قائم امریکی نیورو ٹیکنالوجی فرم نیورا لنک نے کلینکل ٹرائلز کے لیے کلیدی ملازمین کو بھرتی کرنا شروع کر دیا ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ اپنے دماغی امپلانٹس کی انسانی جانچ شروع کرنے کے قریب تر ہے۔

کمپنی نے کلینیکل ٹرائل ڈائریکٹر اور کلینیکل ٹرائل کوآرڈینیٹر کی خدمات حاصل کرنے کے لیے اشتہارات بھی شائع کروا دیے ہیں۔

اشتہارات میں لکھا گیا ہے کہ عملہ "کچھ جدید ترین ڈاکٹروں اور اعلیٰ انجینئرز کے ساتھ مل کر کام کرے گا اور ساتھ ہی نیورالنک کے پہلے کلینیکل ٹرائل کے شرکاء کے ساتھ کام کریں گے۔"

ایلون مسک، جو 256 بلین ڈالر کی دولت کے ساتھ دنیا کے امیر ترین شخص ہیں، نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ 2022 میں کسی بھی وقت نیورالنک دماغی چپس انسانوں میں لگائے جانے کی توقع رکھتے ہیں۔

 ایف ڈی اےکی جانب سے ایلون مسک کے منصوبوں کی منظوری باقی:

تاہم امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی جانب سے دماغی چپ کی جانچ کے ان منصوبوں کی منظوری باقی ہے۔

مسک اور ان کے نیورالنک پارٹنرز نے 2016 میں دماغی چپس تیار کرنے کے لیے کمپنی کی بنیاد رکھی تھی جو انسانوں کو کمپیوٹر سے جوڑتی ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ امپلانٹس مفلوج افراد کو اپنے دماغ سے اسمارٹ فون جیسے آلات کو کنٹرول کرنے کے قابل بنائیں گے۔

انہیں توقع ہے کہ ایک بار جب انسانی جانچ کا آغاز ہو گا تو مزید پیشرفت سے نیوران کے درمیان سگنلز کو  پل کر کے کئی جسمانی معذوریوں کا حل بھی شامل ہے۔

'کمپنی نے گذشتہ اپریل میں بندر کو اپنے دماغ کیساتھ گیم کھیلتے دکھایا تھا'

نیورالنک پہلے ہی ایک مکاک بندر اور سور کے دماغ میں اپنی چپس کا تجربہ کر چکا ہے۔ کمپنی نے گزشتہ برس اپریل میں ایک بندر کو اپنے دماغ کے ساتھ ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے دکھایا تھا۔

مسک نے پچھلے مہینے وال سٹریٹ جرنل کے سی ای او کونسل سربراہی اجلاس میں کہا تھا کہ پہلے انسانی ٹیسٹ ریڑھ کی ہڈی کی شدید چوٹوں والے لوگوں پر ہوں گے۔

انہوں نے کہا، "ہمارے پاس نیورالنک کے ساتھ ایک موقع ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ کی وجہ سے پورے مفلوج جسم کو فعال کر لیں۔"

مزید خبریں :