22 جنوری ، 2022
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) ٹیم ملتان سلطانز کے کپتان اور قومی کرکٹ ٹیم کے وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان کہتے ہیں کہ انہیں آؤٹ ہونا اچھا نہیں لگتا، حریف بولر وکٹ لے تو عجیب لگتا ہے لیکن وہ ایوریج کا نہیں سوچتے کیوں کہ ایوریج کا سوچنے والا پلیئر ایک ایوریج پلیئر ہی ہوتا ہے۔
جیو نیوز کو خصوصی انٹرویو میں 2021 میں 2 ہزار سے زائد ٹی ٹوئنٹی رنز بنانے والے محمد رضوان کا کہنا تھا کہ 2022 میں کوشش کریں گے کہ وہ پہلے سے بھی بہتر کریں اور زیادہ رنز بنائیں۔
رضوان نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کیریئر کے آغاز کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے جو رنز کا نقصان ہوا وہ اللہ نے ایک سال میں ہی پورا کروادیا، آئندہ بھی اپنی پرفارمنس پر یوں ہی توجہ رکھیں گے اور بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔
خیال رہے کہ محمد رضوان کیریئر کے آغاز میں غیر مستقبل مزاجی کا شکار رہے، ان کا بیٹنگ آرڈر ان دنوں مڈل آرڈر یا لوئر مڈل آرڈر ہوا کرتا تھا تاہم پاکستان کرکٹ ٹیم کے سال 2020 میں دورہ نیوزی لینڈ میں محمد رضوان نے اوپننگ کی اور پھر ان کے کیریئر میں یکدم تبدیلی آئی اور وہ بہترین بیٹرز میں شمار ہونے لگے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ذہن میں کیا بات رکھتے ہیں؟ تو رضوان نے کہا کہ ان کی بس یہی کوشش ہوتی ہے کہ حریف کو وکٹ نہ دیں،کیوں کہ جب سامنے والا بولر آؤٹ کردیتا ہے تو بہت عجیب لگتا ہے، اس لیے ترجیح ہے کہ اگر وکٹ بچائی جاسکتی ہے تو پھر کسی حال میں وہ وکٹ گنوائی نہ جائے، حتیٰ کہ اگر رننگ میں معمولی سا بھی خطرہ ہوتو کوشش ہوتی ہے کہ ڈائیو لگاکر رسک لے لیں لیکن وکٹ بچانے کی پوری کوشش کریں۔
قومی ٹیم کے وکٹ کیپر بیٹر نے کہا کہ بابر اعظم کے ساتھ قومی ٹیم میں ان کی جوڑی اچھی ہے، دونوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وکٹ نہیں دینی اور ٹیم کو جتوانا ہے۔
قومی ٹیم کے وکٹ کیپر بیٹر نے کہا کہ میچ پر جانے سے پہلے کوشش کرتے ہیں کہ وکٹ کو پرکھیں ، سینیئرز سے مشورہ کریں اور پھر اندازہ لگائیں کہ گیند کیسے آسکتی ہے اور پھر اس کے مطابق پلان بناکر پریکٹس کرتے ہیں، انڈیا کیخلاف ورلڈ کپ میچ میں بھی یہی کیا تھا، یوں ہی ذہن بناکر پریکٹس کی تھی ، سوچا تھا ایسا ہوگا، ہوا بھی ایسا ہی۔
محمد رضوان نے مزید کہا کہ آسٹریلیا کیخلاف سیمی فائنل کھیلنا مشکل فیصلہ تھا، رسک لیا تھاکیوں کہ ذہن میں تھا کہ اگر کچھ ہوا تو قوم کو کیا جواب دوں گا۔ کرکٹ کھیل ہی بہادری کا ہے، اس لیے ڈاکٹرز سے کہا کہ کھیلنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ ہم بھی چاہتے کہ آپ کھیلیں۔
رضوان کے مطابق ڈاکٹرز نے ان کو کہا تھا کہ وہ ان کے فین ہیں جس سے انہیں کافی حوصلہ ملا تھا۔ ڈاکٹرز نے میچ سے قبل کہا تھا کہ رات اسپتال میں گزاریں اور پھر اگلے روز براہ راست اسپتال سے گراؤنڈ جائیں تاہم ٹیم کے حوصلے بڑھانے کیلئے پہلے ہوٹل گیا، فٹنس ٹیسٹ دیا پھر وہاں سے ساتھ گراؤنڈ آیا، رضوان نے کہا کہ میچ میں پرفارمنس تو ہوئی مگر بدقسمتی رہی کہ میچ ہار گئے۔
پاکستان سپر لیگ کے ساتویں ایڈیشن پر گفتگو کرتے ہوئے محمد رضوان نے اعتماد ظاہر کیا کہ ان کی ٹیم ملتان سلطانز پی ایس ایل میں اعزاز کا دفاع کرنے کی سوچ کے ساتھ میدان میں اترے گی لیکن جو پچھلا سال تھا وہ گزر گیا، اب نیا سال ہے، نئے پلیئرز ہیں، نئی سوچ کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہر گروپ میں دلچسپ انداز کے لوگ ہوتے ہیں، ملتان سلطانز میں شاہنواز دہانی ایک دلچسپ کیریکٹر ہے، وہ ہر وقت ٹیم کو انجری دیتا ہے۔
ایک سوال پر قومی ٹیم کے کھلاڑی نے کہا کہ انہیں ذاتی طور پر بائیو سیکیور ببل نے تنگ نہیں کیا کیوں کہ وہ عام طور پر بھی ایسی ہی زندگی گزاتے ، زیادہ باہر نہیں جاتے۔