دنیا
Time 24 جنوری ، 2022

گُڈلک ڈاکٹر آصف محمود

امریکن پاکستانی ڈاکٹر آصف محمود نے کیلی فورنیا کے 40ویں ڈسٹرکٹ سے کانگریس کا الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ 

انہیں نہ صرف نائب صدر کاملا ہیرئس بلکہ امریکی ایوان نمائندگان کی امورخارجہ کمیٹی کے چئیرمین گریگری میکس سمیت کئی سرکردہ ڈیموکریٹ اراکین کانگریس کی بھی بھرپورحمایت حاصل ہے۔

وہ کانگریس کا الیکشن لڑنےکی دوڑ میں شامل پہلےامریکن پاکستانی ہیں کیونکہ ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے طاہرجاوید بھی قسمت آزمائی کرچکے ہیں مگر ڈیموکریٹ پارٹی کو جس قدر وقت انہوں نے دیا ہے  اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس سب کے باوجود الیکشن جیتنے کے لیے ڈاکٹرآصف محمود کو دو مرحلے درپیش ہیں۔

آپ میں سے اکثر جانتے ہیں کہ امریکا میں کسی بھی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سےالیکشن لڑنے کے خواہشمندوں کوپہلے پرائمری الیکشن لڑنا پڑتاہے جس میں اس نشست کے لیے ایک ہی پارٹی کے مختلف امیدواروں کے درمیان الیکشن ہوتا ہے۔

آصف محمود کا اسی حلقے سے الیکشن لڑنے کی ایک اور خواہش مند ڈیموکریٹ نکول لوپز سے 7 جون کو مقابلہ متوقع ہے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ نکول دستبردار ہو کر آصف محمود کو پارٹی کا بلامقابلہ امیدوار بنانے کی راہ ہموار کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں یا نہیں ؟تاہم قد آور ڈیموکریٹس کی حمایت کے سبب ڈاکٹرآصف محمود کے پارٹی کا امیدوار بننے کے امکانات روشن ہیں، انہیں اصل چیلنج پارٹی امیدوار منتخب ہونے کے بعد درپیش ہوگا۔

امریکا میں وسط مدتی یعنی مڈٹرم الیکشن اس سال 8نومبر کوہورہے ہیں۔ کیلی فورنیا کے 40 ویں ڈسٹرکٹ میں آصف محمود کا مقابلہ ری پبلکن رکن یونگ کم سے متوقع ہے جن کا آبائی پس منظر جنوبی کوریا سے ہے۔ 

یونگ کم نے سن 2020 کے الیکشن میں ڈیموکریٹ گل سیس نیروس کوشکست دے کر ریاست کے 39ویں ڈسٹرکٹ سے نشست جیتی تھی۔  یہ معرکہ انہوں نےاس حقیقت کے باوجود سرانجام دیا تھا کہ 39 ویں ڈسٹرکٹ میں لوگوں کا جھکاؤ ڈیموکریٹس کی جانب تھا جبکہ نئی حلقہ بندی کے بعد بنے اس 40 ویں ڈسٹرکٹ کے لوگوں کا کہیں زیادہ ترجھکاؤ ری پبلکنز کی جانب ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ حلقہ آصف محمود کے لیے پھولوں کی سیج نہیں۔

اس سے پہلے کہ ڈاکٹر آصف محمود کو درپیش اصل امتحان پرنظر ڈالیں، پہلے اک نظر ان کے پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں۔

60 برس کے ڈاکٹرآصف محمود کا آبائی تعلق صوبہ پنجاب کے لوئر مڈل کلاس طبقے سے ہے، وہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرکے امریکا منتقل ہوگئے تھے اور رفتہ رفتہ اپنی حیثیت قائم کی اور ڈیموکریٹس سے وابستہ ہوگئے۔

امریکی سیاست میں عام طورپر لوگ گراس روٹ لیول سے داخل ہوتے ہیں، بورڈ اور کاؤنسل کی سطح پر الیکشن لڑکر علاقےاور پارٹی میں نام بناتے ہیں ،میئربنتے ہیں، ریاستی اسمبلی کاحصہ بنتے ہیں اور پھر کانگریس کا الیکشن لڑنے کی تیاری کرتے ہیں۔

تاہم آصف محمود جو کئی بورڈز کے رکن تو ہیں تاہم انہوں نے کانگریس کا الیکشن لڑنے کے لیے یکسر مختلف طریقہ اپنایا تھا۔

ڈاکٹرآصف نے سب سے پہلے کیلی فورنیا کے لیفٹینینٹ گورنر کا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا لیکن دستبردار ہوکر 2018   میں انشورنش کمشنر کا الیکشن لڑا۔ جتنے ریکارڈ ووٹ انہیں ملے وہ امریکی تاریخ میں کسی مسلم امیدوار کو نہیں ملے تھے مگر پھر بھی وہ الیکشن نہیں جیت پائے تھے اور تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔

ڈاکٹرآصف محمود صدربائیڈن کے مقابلے میں نائب صدر کمیلا ہیرس کے زیادہ قریب ہیں۔ کمیلا ہیرس جب ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدواربننے کی خواہشمند بنیں تو آصف محمود ہی کو سب سے پہلے اعتماد میں لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر آصف محمود نے کیلی فورنیا میں اپنی رہائش گاہ پر ان کے لیے فنڈریزنگ بھی کی تھی۔

کمیلا جب جو بائیڈن کے حق میں دستبردارہوئیں تو آصف محمود نے مجھے اسی وقت بتا دیا تھا کہ جو بائیڈن نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ کمیلا ہیرس ہی کو نائب صدارتی امیدوار بنائیں گے اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔

اس سے پہلے ڈاکٹرآصف محمود امریکا کی سابق صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کی مہم مہم میں پیش پیش رہےتھے۔ وہ واحد امریکن پاکستانی تھے جنہیں بھارت کے یکطرفہ اقدام کے بعد امریکی ایوان نمائندگان کی ذیلی کمیٹی برائے جنوب ایشیا میں سماعت کے موقع پر امریکی مسلمانوں کی آواز کے طورپر بولنے کاموقع دیا گیا تھا۔

مڈٹرم الیکشن کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ تو ڈاکٹرآصف محمود ڈسٹرکٹ 40 کے رہائشی ہیں اور نہ ہی  یونگ کم، دونوں ایک دوسرے کو آؤٹ آف ٹچ ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یونگ کم تو اپنے متوقع حریف ڈاکٹر آصف محمود کوخاطر ہی میں نہیں لا رہیں۔

یونگ کم اس لیے بھی پرامید ہیں کیونکہ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مڈٹرم الیکشنز میں ہوا کا رخ ری پبلکنز کی جانب ہے۔ نہ صرف اس حلقے بلکہ ملک بھر میں یہ وسط مدتی انتخابات صدربائیڈن کی پالیسیوں پر ریفرنڈم ثابت ہوں گے۔

بعض ری پبلکن حلقے سابق صدرٹرمپ سے لاکھ نالاں سہی مگر وہ اس الیکشن کوجیتنے کے لیے اس لیے بھی مل کر سرتوڑ کوشش کریں گے کیونکہ مڈٹرم الیکشن ہی اگلے صدارتی انتخابات کامومیمنٹم بناتے ہیں۔

ڈاکٹر آصف محمود ہوا کارخ نہ موڑ پائے تو حریف یونگ کم کی یہ بات سچ ثابت ہوجائے گی کہ ڈاکٹرآصف محض سیکر امینٹو اور واشنگٹن ڈی سی کے ڈیموکریٹس کی پسند ہیں، ان کا گراس روٹ سیاست سے واسطہ نہیں۔

اس کے برعکس انہوں نے ری پبلکن کو ہراکر ڈیموکریٹس کی نشستوں میں اضافہ کردیا تو وہ اپنے اثرورسوخ کےسبب بطور کانگریس میں اہم عہدہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے۔

گُڈلک ڈاکٹرآصف محمود۔

مزید خبریں :