بلاگ
Time 25 جنوری ، 2022

قومی سلامتی پالیسی اور قومی ہم آہنگی

پچھلے دنوں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمرجاوید باجوہ نے قومی سلامتی کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملٹری سکیورٹی، قومی سلامتی پالیسی کا صرف ایک جزو ہے۔

 جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے دفاع کیلئے اس کی فوج کا ہی مضبوط ہونا کافی نہیں بلکہ جب تک ملک کے 22 کروڑ عوام کو صحت، خوشحالی، تعلیم اور رہن سہن کے مواقع مہیا نہیں ہوتے اس وقت تک اس ملک کی سکیورٹی کمزور ہی رہے گی۔ کسی ملک کی قومی سلامتی دراصل اس کے عوام کی خوشحالی اور اس کے ریاست کیساتھ مضبوط رشتے سے منسلک ہوتی ہے۔ 

اس پالیسی کو تیار کرنے میں سات سال لگے ہیں اوریہ پالیسی 2022سے لے کر 2026تک محیط ہوگی۔ اس پالیسی کی خصوصیت یہ ہے کہ ان مسائل کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے جن کی وجہ سے قومی ہم آہنگی پیدا نہیں ہو رہی، جس میں خاص طور پر بلوچ عوام کے مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

یاد رہے اس مسئلے کا حل صرف اور صرف سیاسی ہے اور جب تک بلوچ اس پالیسی کو نہیں اپناتے اس وقت تک قومی ہم آہنگی کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔گوکہ اس پالیسی میں ساؤتھ بلوچستان کیلئے ایک پیکج کا بھی ذکر کیا گیا ہے لیکن اس پیکج اور اس کے ثمرات کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں، جب تک بلوچوں کو ان کے تشخص کے برقرار رہنے کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی۔

اس پالیسی میں بلوچستان کو ساؤتھ بلوچستان اور نارتھ بلوچستان کہا گیا ہے جو سیاسی طور پر اچھی علامت نہیں کیونکہ اس سے بلوچستان کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کا تصور ابھرنے کا احتمال ہے۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بلوچستان ایک مکمل وفاقی اکائی ہے جو انتظامی طور پر مختلف ڈویژن اور اضلاع میں تقسیم ہے اسلئے اسے ایک مکمل اکائی کے طور پر ہی لیا جائے۔ چونکہ اس پالیسی کی بنیاد قومی ہم آہنگی پر ہےلہٰذا ضروری ہے کہ فاٹا کے وہ اضلاع جو کے پی میں ضم کر دیے گئے ہیں ان کے ترقیاتی پیکج کو مؤثر بنایا جائے کیونکہ اس علاقے نے دہشت گردوں کے ہاتھوں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے اور جب تک ان اضلاع کو خیبرپختون خوا کے دیگر اضلاع کے برابر نہیں لایا جاتا اس وقت تک قومی ہم آہنگی حاصل نہیں ہوسکتی۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس پالیسی کو ابھی تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا اوراس کے ایک سو دس میں سے صرف 50 صفحات پبلک کیے گئے ہیں۔ یہ بتایا گیا ہے کہ اس پالیسی کے جن صفحات کو منظر عام پر نہیں لایا گیا ان میں خارجی امور،احتساب،قومی نصاب،انتظامی امور اورخاص طورپر اٹھارویں ترمیم اور گلگت بلتستان پر نظر ثانی جیسے نکات شامل ہیں۔

یاد رہے کہ اٹھارویں ترمیم آئین کا حصہ ہے اور اس پر نظرثانی کے مرکزیت پر اچھے نتائج مرتب نہیں ہونگے۔اسکے ساتھ ساتھ مختلف حلقوں نے صدارتی نظام کے بارے میں چہ میگوئیاں شروع کرد ی ہیں اور یہ کہا جارہاہے کہ موجود ہ حالات سے فائدہ اٹھا کر ایمرجنسی کا نفاذکیا جائے گا اور پھر ضیاالحق اور پرویز مشرف کی طرز پر ایک ریفرنڈم کراکے صدارتی نظام رائج کردیاجائیگا۔

پاکستان کی 74 سالہ سیاسی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ریاستی دانشور شروع سے ہی ایک مضبوط مرکز کے حامی رہے ہیں اور پاکستان کے مایہ ناز وکیل مسٹر اے کی بروہی اس سلسلے میں دلیل دیتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ پاکستان برطانوی ہند کی ایک جانشین ریاست ہے جس کا طرز حکومت وفاقی کی بجائے وحدانی ہونا چاہیے۔

اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ جب پاکستان کی بنیاد پڑی تو اس نے اپنے وحدانی طرز و طریق کو ہی برقرار رکھالیکن اس تصور کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے شدید دھچکا پہنچا جس سے ثابت ہوا کہ پاکستان دراصل ایسی قوموں کا وفاق ہے جن کی پانچ پانچ ہزار سالہ تاریخ ہے، جن کے پاس مشترکہ خطہ ِ زمین ہے اور انکی زبان،ثقافت، خدوخال اور رسم و روایات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ 

پاکستان کے بانیوں نے تو 1940کی قرار داد پاکستان میں ہندوستان کے شمال مغربی (موجودہ پاکستان)اور مشرقی علاقوں میں آزاد ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا تھا، جس میں شامل ہر حصہ خود مختار اور مقتدر ہو۔سیاسی محققین اس رائے سے متفق ہیں کہ اگر 1970سے پہلے اٹھارہویں ترمیم پاس ہوجاتی تو مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ نہ ہوتا۔

اسلئے ارباب اختیار کو چاہیے کہ ایسے جنتر منتر سے گریز کریں اورپاکستان کومضبوط مرکز کی بجائے ایک فلاحی ریاست بنا کر مختلف قوموں کو برابری کی بنیاد پر سیاسی حقوق دیتے ہوئے مضبوط پاکستان بنانے کی طرف توجہ دیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔