26 جنوری ، 2022
کراچی کی سیاست پچھلی کئی دہائیوں سے ایسی پرپیچ رہی کہ مائیں اپنے بچوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیتیں ۔ سیاست سے وابستہ ہونے کی پاداش میں رشتے ٹھکرائے جاتے۔ صحافت خوف کے سائے تلے جیتی اور خدمت وہ تو شاید سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ہی کی جاتی رہی۔
2018 میں الیکشن ہونے سے پہلے جیسی گومگوں کی کیفیت تھی شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ ایم کیو ایم جو برسوں اس شہر کی بلاشرکت غیرے مالک رہی اس کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور اس کا اپنا ووٹر مخصمے میں تھا کہ ووٹ ڈالنے نکلنا ہے یا نہیں۔ مقامی سطح پر قیادت کے کئی امیدوار پریس کانفرنسز میں پہلے آپ ۔۔۔ پہلے آپ سے ۔۔ پہلے تم یا پہلے میں کے تذبذب کا شکار تھے۔
ایسا سیاسی خلا بدقسمتی سے کئی دہائیوں تک کراچی کو پہلے کبھی میسر نہیں آیا تھا۔ کراچی جو منی پاکستان ہے جہاں ہرقومیت، ہر زبان بولنے والا اس شہر کا پورا مالک ہے۔ سب کے لیے مواقع تھے، ایک خلا تھا جسے ذرا سی توجہ اور تھوڑی سی محنت اور خلوص سے شاید ہمیشہ کے لیے پُر کیا جاسکتا تھا۔
الیکشن ہوئے، آر ٹی ایس بیٹھا، جو ہوا سو ہوا۔ نتائج آئے تو صوبائی قیادت کا ہما متوقع طور پر پیپلز پارٹی کے سر بیٹھا۔ گو قومی اسمبلی کی نشستوں پر ایم کیو ایم کی نشستوں کا بڑا حصہ پی ٹی آئی کے نصیب میں آیا۔ لیکن صوبائی اکائیوں کی مضبوطی کی آئینی ترامیم کے بعد پیپلز پارٹی کے لیے میدان بالکل صاف تھا ۔ پچھلے ادوار میں کی گئی بلدیاتی ترامیم نے میئر کے اختیارات کچرا اٹھانے تک محدود کردیئے تھے اور وسائل کے لیے وہ خود صوبائی سرخ فیتے کے پیچھے قید تھا۔
ایم کیو ایم کی گذشتہ انتخابات کے بعد کی سیاست کا تذکرہ اگلے کسی کالم کےلیے چھوڑ کر پیپلز پارٹی کو ملےسنہری موقع کا ذکر کرنا زیادہ اہم ہوگا۔
صوبائی حکومت کے پاس سنہرا موقع تھا کہ وہ اگلے تین چار سال کی بھرپور خدمت، محبت اور لگن سے کراچی والوں کے دل جیت سکتی تھی۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں تھی۔ 2013 سے 2018 میں شہباز شریف کے لاہور ماڈل کو فالو کرنا تھا۔
کراچی کے شہری ٹرانسپورٹ کے قابل استعمال ذرائع کو ترس رہے تھے۔ بسز ، لوکل ٹرین منصوبے ان کے منہ سے شکریہ بلاول یا شکریہ پیپلز پارٹی جیسے الفاظ نکلوانے میں کامیاب ہوسکتے تھے۔
لیکں حال یہ رہا کہ وزیر ٹرانسپورٹ بدلتے رہے۔ ساٹھ بسوں کی آمد کی تاریخیں۔ پھر تاریخوں پر تاریخیں۔۔۔ اور بالآخر وفاق بازی کے گیا۔
سرکلر ریلوے/ میٹرو ٹرین جو کسی بھی میٹروپولیٹن کا لازمی جز ہے کئی برسوں بلکہ دہائیوں سے کراچی والوں کا خواب ہی رہے۔ جب کہ ملک کہ دوسرے بڑے شہروں یہ خواب حقیقت ہونے لگا ہے۔
پانی کا انتظام شہر میں برسوں کئی طرح کے مافیاز کے نرغے میں ہے۔ جہاں ٹینکر والوں کو پانی ملتا ہے لائنوں میں نہیں آتا۔ سیوریج کا پول ہر بارش میں کھل جاتا ہے۔ زیادہ بارش، زیادہ پانی۔ سمجھ تو گئے ہوں گے۔
تعلیمی اداروں کی صورتحال بہترین نہیں۔ بہتر نہیں تو کم از کم قابل قبول بنائی جاسکتی تھی۔ پاکستان میں سب سے مضبوط اور تگڑاپرائیویٹ اسکول مافیا کراچی میں ہے اور سرکار اگر ملوث نہیں تو کم از کم سہولتکار ضرور ہے۔
صحت کے شعبے میں گو پرائیوٹ پبلک پارٹنر شپ کے تحت کام ہوا ہے لیکن مزید کام ہوسکتاتھا ۔ ہوسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کراچی خدمت کی سیاست کے ان تین چار سال کے عوض اہلیان کراچی کے دل اور ووٹ دونوں جیت سکتی تھی۔ پھر بلدیاتی الیکشن کسی بھی نظام کے تحت ہوں پیپلز پارٹی کا کوئی مقابل نہ ہوتا اور ایم کیو ایم کا خلا پیپلز پارٹی بحس و خوبی پُر کرلیتی۔
افسوس ایسی صورتحال میں جب ایم کیو ایم غیر حاضر تھی یا وفاق میں گم شدہ ، پیپلز پارٹی نے کراچی والوں کا دل جیتنے کا سنہری موقع گنوادیا۔ یہ ٹرین تو نکل چکی۔
کراچی بلاشبہ سندھ ہے اور سندھ کا حصہ ہے لیکن انتظامی طور پر اس کےمسائل ایک منفرد حل کے متقاضی ہیں۔ یہاں کے مسائل کا اسکیل ملک کے کئی ایک شہروں کے مقابلے میں بہت بڑا ہے۔
اب نیا شور غوغا بلدیاتی نظام کا ہے پیپلز پارٹی کے سوا کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز اس نئے بلدیاتی نظام پر معترض ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ پیپلز پارٹی اپنے جمہوری کریڈنشلز کو ملحوط رکھتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ملک کے سب سے بڑے شہر میں گراس روٹ لیول پر جمہوریت کو مضبوط کرنے اور اختیارات کی نچلی ترین سطح پر منتقلی کا راستہ ہموار کرے۔
ایسے میں بلاول بھٹو صاحب کا بیان کہ بلدیاتی نظام کو کالا نظام کہنے والوں کا منہ کالا ہوگا اور پیپلز پارٹی سندھ کے وزراء ایک خالص انتظامی مسئلے کو لسانی مسئلہ بتا کر خود کو آئسولیٹ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
کراچی کو ایک جامع متفقہ بلدیاتی نظام دینے کے پیپلز پارٹی کو دو فائدے ہوں گے۔ اول کراچی کے شہری مسائل کے حل کا ایک سنجیدہ راستہ کھلے گا جس کا کریڈٹ کراچی میں بسنے والا ہر شہری خواہ کو کسی بھی ذات قبیلے زبان کا ہو پیپلز پارٹی کو دینے پر مجبور ہوگا۔
دوم پیپلز پارٹی کے جمہوری کریڈنشلز مزید مضبوط ہوں گے اور وہ سینہ تان کر کہ سکیں گے ہم نے اپنے سیاسی مخالفین کےساتھ بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالا اور اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم کی۔ بالکل ویسے ہی جیسے آج سابق صدر زرداری فخریہ کہتے ہیں کہ میں نے صدر کو حاصل بے انتہا اختیارات منتخب وزیراعظم کو واپس کیے اور اٹھارویں ترمیم سے صوبوں کی خودمختاری بڑھائی۔
خدمت سے دل جیتنے والی ٹرین تو نکل چکی۔ لیکن اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا کارنامہ اب بھی سر انجام دیا جاسکتا ہے ۔ پیپلز پارٹی میں موجود دانشوروں اور سنیئر فہم و شعور والوں کی ذمہ داری ہے کہ اس اہم معاملے پر بلاول صاحب کی توجہ دلائیں۔ کہیں یہ ٹرین بھی نہ نکل جائے۔۔۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔