29 جنوری ، 2022
پاکستان میں ہر کچھ سال بعد نظام کی تبدیلی کے بارے میں ایک بحث چھڑ جاتی ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر، پچھلے کئی ہفتوں سے ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کی بحث چل رہی ہے، اور شاید ہمیشہ کی طرح اِس مرتبہ بھی ہم اِسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کرنا آسان نہیں ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی حالیہ تقریر، مشیر احتساب شہزاد اکبر کے استعفے اور صدارتی نظام کے فوائد و نقصانات پر کسی اور دِن بات ہوگی، آج کے کالم میں ہم صدارتی نظام کی بار بار اُبھرتی تجویز کے پیچھے موجود بنیادی پہلوؤں پر بات کریں گے۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے لے کر اب تک ہمارے ہاں کسی بھی نظام کا تسلسل نہیں رہا اور نہ ہی رائج نظام میں کوئی تسلسل رہا ہے۔ یعنی نہ تو ہم کسی ایک نظام کو زیادہ عرصہ تک چلا سکے ہیں اور نہ ہی جو نظام چل رہا ہوتا ہے، اُس کو مضبوط کر سکے ہیں بلکہ کچھ ہی عرصہ بعد اُس نظام میں تبدیلی کیلئے کھینچا تانی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
مارشل لا کے طویل دورانیے کے بعد 2008میں جو جمہوری نظام ملک میں نافذ ہوا تھا، آج 2022کا جمہوری نظام اُس سے قدرے مختلف ہے۔ 2008سے لے کر آج تک جو بھی جمہوری حکومت وجود میں آئی، وہ اقتدار میں آنے کے بعد ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی بجائے، اپنے اقتدار کی بقا کی جنگ میں مصروفِ عمل ہو جاتی رہی ہے، جس کی وجہ ہمارے نظام میں تسلسل کی عدم موجودگی ہے۔
چونکہ ہمارے ملک میں گاہے گاہے کوئی نیا نظام متعارف ہوتا رہا، یا پرانا نظام ہی تبدیلیوں کے بعد دوبارہ نافذ کیا جاتا رہا، اِس لیے کسی بھی نظام پر ہمارے عوام کا یقین اُتنا پختہ نہیں ہو سکا جتنا دیگر ممالک کے عوام کا اپنے اپنے ملک میں رائج نظام پر ہے۔
پاکستان میں اگرچہ آئین کی بالادستی کی بات تو کی جاتی ہے لیکن جو جذبہ امریکی شہری میں اپنے آئین کے حوالے سے پایا جاتا ہے، پاکستان کے شہری میں وہ جذبہ اور جوش اپنے آئین کے حوالے سے موجود نہیں ہے۔ جب عوام نے ملک میں کسی ایک نظام کے تسلسل کی بجائے، ایک کے بعد ایک نیا نظام اور اُسے ناکام ہوتے دیکھا ہو اور نظام کی ناکامی کی وجہ سے زوال کا مزہ بھی چکھا ہو تو اُس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اُس نظام کو درست اور بہتر کرنے کی بجائے اُس سے جان چھڑانا زیادہ آسان نظر آتا ہے۔
دوسرا مسئلہ ہمارے ریاستی، معاشی اور معاشرتی مسائل کی تخفیف کا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پیچیدہ اور مبہم مسائل کے حل شاید بہت آسان ہیں۔ پاکستان کو ٹھیک کرنا ہے تو صرف کرپشن ختم کردو۔ پاکستان کو ٹھیک کرنا ہے تو صرف نظامِ انصاف بہتر بنا دو۔ پاکستان کو ٹھیک کرنا ہے تو یہاں سے صرف جمہوری نظام کو رُخصت کردو، یہ قوم اِس کے قابل نہیں ہے۔ پاکستان کو ٹھیک کرنا ہے تو صرف سول بالادستی لے آئو۔
پاکستان کو ٹھیک کرنا ہے تو یہاں صرف صدارتی نظام نافذ کردو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید اِس ایک اقدام سے پاکستان کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے، لیکن یہ تصویر کاصرف ایک رُخ اور ایک پیچیدہ مسئلے کا ایک زاویۂ نگاہ ہے۔ یہ مسائل بجا طور پر حل طلب ہیں جنہیں بہر حال جلد از جلد حل کیا جانا چاہئےلیکن دنیا میں صدارتی نظام کی بےشمار مثالیں موجود ہیں، ہم خود ماضی میں اِس نظام کا مزہ چکھ چکے ہیں، اور ہمارا یہ تلخ تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ اِس نظام کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔
اِس لیے جب ہم اپنی توجہ اپنے ریاستی، معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی بجائے نظام کی تبدیلی پر مرکوز کر لیتے ہیں تو یہ نظام تو تبدیل ہو ہی جاتا ہے لیکن ہمارے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔
سب سے بُرا جھوٹ وہی ہوتا ہے جو ہم خود سے بولتے ہیں اورہم بار بار خود سے یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ ہمارے مسائل کی جڑ ہمارا نظام ہے، جبکہ کسی بھی ملک میں رائج نظام مسائل سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہے اور ہر نظام کے اپنے فوائد اور نقصانات ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں صدارتی اور پارلیمانی دونوں طرح کے نظام رائج ہیں اور دونوں کی کامیابیاں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اگر اِن دونوں نظاموں کا موازنہ کیا جائے تو یہ ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہیں لیکن دونوں کی ترجیحات ایک سی ہیں۔ اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ نظام پر ڈھالنا لیڈروں کا پرانا بہانہ ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صدارتی نظام کو پارلیمنٹ کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ صدارتی نظام میں قانون سازی سے واقفیت نہیں رکھتے۔
سچ یہ ہے کہ ہمارے ہاں آمریت کے علاوہ کوئی بھی نظام اپنی اصل شکل میں رائج نہیں ہو سکا اور یہ افسوس کی بات ہے کہ ہم صرف ایک ایسا نظام ملک میں چلا سکے ہیں جو اِسے صرف تباہی کی طرف لے کر گیا ہے۔ نظام میں تبدیلی کی بجائے ہمیں ایک نظام میں تسلسل اور اُسے اُس کی روح کے مطابق رائج کرنے کی بات کرنی چاہئے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایسے طویل المدتی مقاصد ہمارے قلیل المدتی مقتدر طبقے کے اپنے ذاتی مقاصد کی موجودگی میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔