Time 30 جنوری ، 2022
بلاگ

حکومتی دیوالیہ اور حزب اختلاف کا مخمصہ

عمران حکومت کا معاشی و مالیاتی اور انتظامی دیوالیہ تو بری طرح سے پٹا ہی تھا، اخلاقی دیوالیہ پن کی رہی سہی کسر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے پوری کردی ہے۔ کرپشن کے خاتمے اور کڑے احتساب کے جس زور دار بیانیے پہ عمران خان نے حزبِ اختلاف کی آزمودہ قیادت کے چھکے چھڑادئیے تھے، وہ اب خود ساختہ محتسبوں کے گلے پڑگیا ہے۔

 ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کا روحانی خواب دکھانے والے وزیراعظم اب دلاسہ دے بھی رہے ہیں تو ریاستِ مدینہ کا حال بھی پہلے پانچ برسوں میں ایسا ہی تھا۔ روز محشر برپا کرتی مہنگائی میں تاریخی اوراق کی الٹ پلٹ کام آئے بھی تو کیسے؟ ایسے میں بے پر کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج فیک بیانیے کوبیچے بھی تو کیسے جو ایک دھیلے کا نہیں رہا۔ اور احتساب کے زار شہزاد اکبر کو ایوان وزیراعظم سے دُم دبا کر بھاگنے کی پڑی۔ ایک جمہوری طور پر فیک حکومت، فیک بیانیہ اور فیک اخلاقی جواز کے ساتھ بیساکھیوں کے سہارے وقت گزاری نہ کرے تو کرے بھی کیا کہ کرنے کو سوائے اپوزیشن کو کوستے رہنے کہ اس کے پلے کچھ نہیں۔

 لیکن پلے اپوزیشن کے بھی کچھ نہیں۔ اس کے باوجود کہ محتسبوں کے پلے بھی کچھ نہ پڑا اور حزب اختلاف کی قد آور قیادت اب احتساب کے شکنجے سے صاف بچ نکلتی نظر آرہی ہے، اپوزیشن کو خود اپوزیشن مات دینے پہ تُلی بیٹھی ہے جس طرح سینیٹ میں اسٹیٹ بینک کی ’’خود مختاری‘‘ کے بل پہ نام نہاد اکثریتی متحدہ اپوزیشن کو شکست ہوئی اُس پہ شرمندگی چھپائے نہیں چھپتی۔ قائد حزبِ اختلاف یوسف رضا گیلانی سمیت اپوزیشن کے 8 اراکین غیرحاضر پائے گئے، معلوم نہیں کس کے فون پر۔ 

حکومت کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے فیصلہ کن ووٹ کے ساتھ 43 ووٹ اور حزبِ اختلاف کو 42 ووٹ پڑے۔ اس پر اب ماتم کیسا؟ یادشِ بخیر یہ یوسف رضا گیلانی اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے حلقہ انتخاب سے حفیظ شیخ کے خلاف رکن منتخب کرائے گئے تھے؟ پھر صادق سنجرانی کے خلاف کھلی اکثریت کس طرح اقلیت میں تبدیل کرائی گئی تھی اور پھر حکومتی بنچوں سے ایک آزاد گروپ کی مدد سے یوسف رضا گیلانی کیسے قائد حزبِ اختلاف مقرر کرائے گئے تھے تو ایک اہم بل پر قائد حزبِ اختلاف کی دانستہ غیر حاضری سے حکومت کی ایک ووٹ سے فتح اور اپوزیشن کی اخلاقی شکست پر پیپلزپارٹی اپنے قائد حزب اختلاف کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کرنے کو تیار ہے؟

 اور کیا یوسف رضا گیلانی میں رتی بھر اخلاقی جرأت ہے کہ وہ ایسے منصب سے دستبردار ہوجائیں جس کے وہ پہلے سے ہی اہل نہ تھے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کی اس خود شکستگی کے بعد تو ان ہائوس تبدیلیوں کے غبارے سے ہوا نکل جانی چاہیے۔ ویسے بھی ان ہائوس تبدیلیوں کی باگ ڈور حکومت کے ہاتھ میں ہے نہ اپوزیشن کے۔ جس سرعت سے پارلیمنٹ سے درجنوں بل بمعہ منی بجٹ منظور کروائے گئے ہیں، اس کے بعد کیا اُمید رہ جاتی ہے؟

ہم تیسری پارلیمنٹ کے آخری برس کے ایسے دور میں ہیں جہاں اسٹیٹس کو، اسٹیٹس کو برقرار رکھنے والی قوتوں ہی کے ہاتھ میں ہے۔ حزبِ اختلاف کی صفوں میں ان ہائوس تبدیلی کے محرکین کی تمام تر اُمیدیں تو صفحہ پلٹنے سے وابستہ تھیں جو ظاہر ہے برنہ آئیں۔ ان ہائوس تبدیلیوں کے غبارے سے ہوا نکلنے پر اب پیپلزپارٹی اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ طوعاً و کرہاً سڑکوں پہ ایجی ٹیشن کی راہ لیتی نظر آئیں گی۔

یہ مرحلہ غالباً سیاسی تعطل (Stalemete) کا ہے۔ حکومت ہے کہ چل نہیں رہی اور حزب اختلاف ہے کہ مخمصے سے دوچار ہے۔ اور وہ مخمصہ یہ ہے کہ سیاست مقتدرہ سے مل کر کھیلی جائے یا پھر عوامی قوت کے بل پر۔ اس پر مسلم لیگ نواز بھی منقسم ہے اور پیپلزپارٹی بھی۔ نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان ڈائریکٹ ایکشن کی جانب چلتے ہیں تو میاں شہباز شریف اور لیگی شرفا پائوں پڑ جاتے ہیں۔ بلاول بھٹو بے نظیر سیاست کی راہ لیتے ہیں تو شفقت پدری آڑے آجاتی ہے کہ مزید شہادتوں کی سکت نہیں۔ 

لہٰذا، اپوزیشن کی ہر دو جماعتیں اپنی اندرونی کمزوریوں کی گرفت میں آجاتی ہیں۔ جس عطار کے لونڈے سے دوا مل سکتی ہے، اُس سے ابھی دوا مل نہیں رہی اور ملے بھی تو اُسی پرانی تنخواہ پہ سیاسی چاکری باعثِ ندامت ہے۔ بحران پہلے ہی اتنا گونا گوں ہے کہ ہمارے ناخدا کیوں بے یقینی کے حالات میں ایک اور سیاسی بحران کا درد سر لیں گے؟ سسٹم کو ابھی اندر سے ممکنہ خطرہ نہیں، سوائے اس کے کہ اقتدار سے نکالے جانے پہ خطرناک ثابت ہونے کا دعویٰ کرنے والے خود کش حملہ نہ کر بیٹھیں اور اپنے ساتھ ساتھ سسٹم کو بھی لے بیٹھیں۔ ویسے بھی بااصول جمہوری سیاست کو ایسی کیا جلدی پڑی ہے؟ اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کے ملبے کی مصیبت اپنے سر لے۔ سیاسی بدقسمتی یہ ہے کہ تحریک انصاف سمیت اسٹیٹس کو کی تمام جماعتیں بشمول ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے پاس ملک کو درپیش ہمہ گیر بحران اور ملک کو وجودی بھنور سے نکالنے کا کوئی متبادل پروگرام نہیں۔

 نہ ہی ان جماعتوں کے پاس ایسی عوامی قوت متحرکہ ہے جو اسٹیٹس کو کو بدل دے۔ ’’فقط ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے سے آپ سیاسی اقتدار اعلیٰ کی آئینی کایا پلٹ نہیں سکتے، نہ ہی پرانے گھسے پٹے دست نگری و پسماندگی کے نسخوں سے آپ ملک کی معاشی سلامتی اور انسانی سلامتی کو یقینی بناسکتے ہیں۔ بطور ریاست پاکستان کو ہر اعتبار سے ایک سیاسی، معاشی اور سماجی کایا پلٹ کی ضرورت ہے جس کی پشت پر ایک عظیم عوامی جمہوری تحریک ہو۔ تبھی کچھ ہوسکتا ہے۔ لیکن اپوزیشن کے پاس نہ کوئی متبادل ایجنڈا ہے، نہ عوامی سکت۔ ایسے میں روکھی سوکھی سیاست پہ گزارا کرنے والے کیوں نہیں تیسری پارلیمنٹ کو اپنی فطری موت کی طرف بڑھنے کا انتظار کرتے۔ ایک آزادانہ، منصفانہ انتخابات کے ذریعے رائے دہندگان کو فیصلہ کرنے کا موقع دیں، نہ کہ صدارتی نظام کا راگ الاپنے والوں کو سازش کا ایک اور موقع۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔