09 فروری ، 2022
جوانی بھی کیسا خواب در خواب کا جادوئی سلسلہ ہے۔ ہماری نسل کے لیے 80 ء کی دہائی کے آخری برس فروری میں خزاں زدہ ٹہنیوں سے پھوٹتی کونپلوں جیسی لطیف آرزوؤں کا موسم تھے۔ ہمارے ملک میں تیسری آمریت کی طویل رات ختم ہو رہی تھی۔ مشرقی یورپ سے لے کر لاطینی امریکا تک جمہوریت کے چشمے ابل رہے تھے۔
یورپ صدیوں پر محیط جنگ اور رقابت کی تاریخ کو دیوار برلن کی طرح روندتے ہوئے یورپی یونین تشکیل دے رہا تھا۔ سخاروف اور ویکلاف ہیول سے لے کر نیلسن منڈیلااور بینجمن مولائس تک نئی دنیا کے دیوتا ہماری خمار آلود آنکھوں کے سامنے کہنہ چٹانوں سے ایک نئی دنیا تراش رہے تھے۔ اور خود ہم میں سے بہت سوں کے بھیتر میں پہلی محبتوں کے سُر مچلنے لگے تھے…
کتاب میں سربستہ راز، راگ ودیا، رنگوں کا کوہ الوان (اور کچھ ایسا بھی اب جس کا اخبار کے صفحات پر ذکر تک ممکن نہیں ) نیز بہت دور تک پھیلی ہوئی نودریافت دنیا جو گویا ہمارے پرجوش ہاتھوں میں تبدیل ہونے کو بے قرار تھی۔ ہمیں معصومیت کی حد تک یقین تھا کہ ہم Past imperfect کوSomething’s Gotta Give کے اسم اعظم سے Present Perfect میں بدل ڈالیں گے۔ ہمیں کسی نے لسان الغیب کے انتباہ سے آگاہ ہی نہیں کیا… کہ عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکل ہا۔
بس یہ انہی برسوں کا قصہ ہے کہ اجمل کمال نے ہمیں کولمبیا کے جادو نگار گبرئیل گارشیا مارکیز سے شناسائی دی۔ سہ ماہی ’آج‘ کا کوئی 500 صفحات کا ایک ضخیم شمارہ ہمارے ہاتھ لگا جو 1983 میں ادب کا نوبل انعام پانے والے ہسپانوی زبان کے ادیب گارشیا مارکیز کی چنیدہ تخلیقات اور مطالعات پر مشتمل تھا۔
اجمل کمال گزشتہ 40 برس میں اردو ادب کے اہم ترین محسنوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ کہ انہوں نے ایک ایسے عہد میں جب اردو دنیا عالمی ادب سے بے گانگی کے راستے پر چل نکلی تھی، اردو ادب کو بے مثل ترجموں کی مدد سے بے شمار زبانوں کی جدید ترین تخلیقات سے جوڑے رکھنے کا بیڑا اٹھایا۔ حرف مطبوعہ سے بے لوث اور جنون آسا لگن کے بنا ایسا معجزہ ممکن نہیں تھا۔
’آج‘ کے مذکورہ شمارے میں گارشیا کی ایک قدرے مختصر کہانی بھی شامل تھی، ’مونتیل کی بیوہ‘۔ سبحان اللہ! انفرادی زندگی کی کائناتی تعبیر، گہرے سیاسی شعور اور سانس لیتے نفسیاتی اشاروں کے سہ آتشہ میں گندھا ایک بوڑھی عورت کا المیہ، جس کا شوہر آمریت سے گٹھ جوڑ کر کے ایک معمولی تاجر سے قصبے کا امیر ترین شخص بن گیا تھا۔ حوزے مونتیل کی موت کے بعد اس کی بیوہ قصبے والوں کی ان کہی مخاصمت اور تنہائی ہی کا شکار نہیں، بلکہ لوٹ مار سے جمع کی ہوئی دولت کے بل پر بیرون ملک گل چھرے اڑانے والی اولاد کی بے گانگی سے بھی بیزار ہے۔
یہ آمرانہ اقتدار اور انسانی رشتوں میں ناگزیر منافرت کی کہانی ہے۔ آپ بھی سوچیں گے کہ یہ شخص آدھا کالم ادھر ادھر کی آوارہ خیالی میں گزار دیتا ہے۔ درویش اپنی افتاد سے مجبور ہے۔ بادہ و ساغر کہے بغیر مشاہدہ حق کی گفتگو نہیں کر سکتا اس لیے کہ جمہوریت اجتماعی فراست کی مدد سے انسانوں کی سانجھ بڑھانے کا تخلیقی تجربہ ہے اور آمریت انسان کے امکان کو طاقت کی تیغ سے قطع کرنے کا عمل۔ سُر کے گیان، لفظ کی تہ داری، حرکت کی تحسین اور ہیئت کی فہم کے بغیر سیاسی مشق محض چارہ کاٹنے کی مشین سے ذاتی مفاد کی فصل تراشنے کا کام رہ جاتا ہے، حتمی تجزیے میں فنا کی بے معنویت۔ یوں سمجھیے کہ جمہوریت ’باسودے کی مریم‘ ہے اور آمریت ’مونتیل کی بیوہ‘۔
اطلاعات کے مطابق عمران حکومت کے 22 کروڑ قیدیوں کی رہائی کا وقت آن پہنچا۔ اگرچہ دستوری میعاد کے 15 ماہ باقی ہیں لیکن شام کے سائے لمبے ہو رہے ہیں۔ اس کے اسباب گن لیجیے۔ شہزاد اکبر کی رخصتی کے بعد احتساب کا باب بند ہو گیا۔ ثبوت یہ کہ شاہ دوراں اپنے نورتنوں کو مقصود چپڑاسی کا اکاؤنٹ یاد کروانے پر اتر آئے۔
عدلیہ کے بدلے ہوئے تیور آپ دیکھ رہے ہیں۔ ایک اشارہ یہ کہ جو ہاتھ جگر (یعنی سر) پر ہونے کی نوید دی جاتی تھی، وہ دست دعا ہو چکا۔ سیاسی محاذ کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت خبر دیتا ہے کہ یمین و یسار کے کھلاڑیوں میں تال میل بے سبب نہیں۔ اسلامی صدارتی نظام کا شوشہ آپ دیکھ رہے ہیں، اسے اگست 1998 کی پندرہویں آئینی ترمیم کی بازگشت جانیے۔
اگست 2014 سے جولائی 2018 تک جو کھیل کھیلا گیا، اس کا بنیادی مقصد حساس معاشی وسائل کی یافت تھا لیکن بھاڑے کے بیل نے پوری معیشت ہی کو بند گلی میں لا کھڑا کیا۔ ایسا ہرکارہ کہ مکتوب الیہ کے غضب کی آنچ مکتوب نگار (حقیقی) تک پہنچ رہی ہے۔ معاشی اشاریوں میں مسلسل گراوٹ کے جواب میں نعروں سے کام نہیں چل سکتا کہ معیشت کی منطق بے رحم ہوتی ہے۔
افغان پالیسی کے خار و خس چار دہائی پرانے سہی لیکن 15 اگست 21ء کے بعد کی گہر فشانیوں کو کیا کہیے۔ خارجہ پالیسی ایسی استوار کہ ایشیا، یورپ، مشرق وسطیٰ اور اوقیانوس کے پار، کہیں کوئی دوست نظر نہیں آتا۔ پارلیمنٹ کی وقعت ایک طرف، یہاں تو کابینہ کی جگہ بھی ترجمان آ گئے۔ مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟ شمال میں دیو قامت ہمسائے اور تادم تحریر واحد سپر طاقت میں ایک نئی سرد جنگ کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے جیسی سفارتی مہارت چاہیے، اس کی دور دور تک خبر نہیں۔
ذرائع ابلاغ کا ناطقہ بند کرنا بے معنی ہے کہ عوام میڈیا سے نہیں، اپنے دسترخوان سے خبر حاصل کرتے ہیں۔ فرمان امروز یہ ہے کہ فروری اور مارچ میں سیاسی اتھل پتھل کی خبر دینے کی بجائے مثبت انداز فکر اپنایا جائے۔ موٹیویشنل اسپیکرز اور سرکاری نغمہ گروں کا یہ نسخہ اس لیے کارآمد نہیں کہ مسلسل ناخن چبانے سے مونتیل کی بیوہ کی انگلیاں زخمی ہو چکی ہیں اور تھکن اس کے بازوئوں میں اتر آئی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔