10 فروری ، 2022
پی ڈی ایم نے اپنی غلطی کی اصلاح شروع کردی ہے، جس پیپلزپارٹی اور اے این پی کو پی ڈی ایم سے نکالاتھا انہیں پھر سے اتحاد کا حصہ بنانےکی راہ ہموار کی جارہی ہے۔
پی ڈی ایم کے آئندہ اجلاس میں اگر پیپلزپارٹی اور اے این پی کو پھر سے شامل کرلیا جاتا ہے تو یہ سیاسی تدبر کا اظہار ہوگا کیونکہ غلطی کو تسلیم کرنا عظمت اور عاجزی سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی افق پریہ نیک شگون بھی ہوگا کیونکہ منقسم اپوزیشن کی مثال اس لولی اور لنگڑی نہتی فوج جیسی ہوتی ہے جو طاقتور حریف کو زیر کرنے کے لیے سرپٹخنے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔
اپوزیشن کے اسلام آباد کی جانب مارچ سے پہلے یہ حکومت کو پیغام بھی ہوگا کہ پی ڈی ایم مقصد کے حصول میں کس قدر سنجیدہ ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر پی ڈیم ایم ماضی کی طرح فعال کر بھی لی جائے تو اس کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ کیا یہ سب کچھ پی ٹی آئی حکومت کو گرانے کی کوششوں کیلئے کیا جانا چاہیے یا کوئی اس سے بڑا مقصد بھی حاصل کیا جاسکتا ہے؟
آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے شہباز شریف کی مریم نواز کی موجودگی میں ملاقات نے کم سے کم یہ واضح کردیا ہے کہ فی الحال ن لیگ کے دونوں گروپس کو یقین ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے اتحاد ہی واحد راستہ ہے لیکن یہ اپوزیشن کی بدقسمتی ہے کہ وفاق اور صوبائی سطح پر حکومتوں کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب بنانا ان کے بس کی بات نہیں۔
اسپیکر کیخلاف تحریک عدم اعتماد ہو یا ق لیگ اور پی ٹی آئی کے ناراض دھڑے کو اپنا سمجھ کر پنجاب میں اس جیسی کوئی کوشش ، یہ بظاہر دیوار سے سر ٹکرانے ہی کے مترادف رہےگا۔اپوزیشن کا دعویٰ ہےکہ منہگائی تلے پسے عوام اب حکومت کو ایک لمحہ بھی دینے کے حق میں نہیں۔
فرض کرلیں ،ایسا ہی ہے ، مگر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حکومت کیخلاف بار بار کی ناکامی عوام کی نظروں میں اپوزیشن کو طاقتور نہیں مزید کمزور ظاہر کرےگی جبکہ لوگوں کی وہ آس بھی ٹوٹ جائے گی جو وہ ن لیگ یا پیپلزپارٹی سے باندھے ہوئے ہیں ۔ عوام کو مسیحا چاہیے نہ کہ ایسی اپوزیشن جو ایسے روگ میں مبتلا ہو جس کا علاج کرنے سے وہ خود قاصر ہو۔
فرض کرلیں اسپیکر کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کر بھی لی گئی تو علامتی فتح سے زیادہ کیا حاصل ہوگا؟ تصورکرلیں پنجاب حکومت گرا کر ن لیگ،پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے اراکین پی ٹی آئی کے ناراض گروپ سے مل کر حکومت بنا بھی لیتے ہیں تو ایک برس میں کیا عوام کے مسائل حل کرلیے جائیں گے؟مرکز ہو یا صوبے،ایک ایسے موقع پر کہ جب حکومت تقریباً چاربرس مکمل کرنے کو ہے، اسے شہید ہونے کا موقع دینا عقلمندی نہیں۔
یہ درست ہے کہ اگلا برس الیکشن بجٹ لائےگا، ترقیاتی کاموں کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہانےکی کوشش جائے گی، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کرکے لوگوں کو یہ یقین دلانے کے طریقے اپنائے جائیں گے کہ حکومت عوام کی بہبود میں دلچسپی رکھتی ہے۔یہ اقدامات لوگوں کے آنسو کسی حد تک پونچھ بھی دیں لیکن اس بار جس منہگائی کاسامنا ہوا ہے یہ بھلائے نہیں بھولےگا۔یہ طے ہے کہ دودھ کا جلا چھاج بھی پھونک پھونک کر ہی پیے گا۔
سیاسی صورتحال کامعروضی جائزہ لیا جائے تو یہ طے ہے کہ اب بعض وجوہات کی بنا پر ملک میں معلق پارلیمنٹ ہی بنے گی،یعنی کوئی ایک جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کرپائے گی۔ اس لیے کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ بلدیاتی انتخابات کامیدان مل کر مارا جائے۔ ایسی حکمت عملی اپنائی جائے کہ پی ٹی آئی کے پیروں سے زمین کھینچ لی جائے۔
حکمراں جماعت کو نچلی سطح پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو پارلیمانی الیکشن میں پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو دن میں تارے نظرآجائیں گے۔وہ دردر کی خاک چھانتے پھریں گے کہ ن لیگ یا پیپلزپارٹی انہیں کسی طرح گلے لگالے اور ٹکٹ دے کر سیاسی مستقبل بچالے۔
ان چار سالوں نے پیپلزپارٹی کو بلاول بھٹو اور ن لیگ کو مریم نواز جیسی جرات مند اور دوٹوک بات کہنے والی قیادت دی ہے۔ انہیں قدم قدم پر آصف زرداری اور نوازشریف جیسے زیرک سیاستدانوں کی رہنمائی حاصل ہے۔ شہروں شہروں جلسے اور ریلیاں کرکے دونوں نوجوان سیاستدان اب منجھ چکے ہیں، چونکہ دونوں ہی کو حکومت کرنے کا تجربہ نہیں، اس لیے سگنل مل بھی جائیں،خلائی مخلوق سیاسی شعبدہ بازوں کو جھولی میں لاکر ڈال بھی دے تو انہیں ایک سال کی حکومت لے کر خود پر داغ لگوانے سے بچنا چاہیے۔
اپوزیشن کے لیے یہ وقت خود کو مستحکم کرنےاورعوام سے رابطے مضبوط کرنا کا اور ایسے رہنماؤں کے چناؤ کا ہے جو اپنے حلقوں میں کامیاب الیکشن مہم چلا کر پارٹی کو فتح دلاسکیں۔
یہ وقت ان لوگوں کو پرکھنے کا بھی ہے جو دعویدار ہیں کہ وہ با آسانی اپنے حریف کو ہراسکتےہیں، یہ سیاسی سمجھوتوں کا بھی وقت ہے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا بھی تاکہ ایک دوسرے پر تیروں کی بارش یا شیروں کے حملوں کے بجائے مشترکہ حریف کو زیر کیا جائے۔ یہ صبر سے انتظار کی گھڑیاں گزارکر شکار پر حملے کا وقت ہے۔
ویسے بھی اپوزیشن کہتی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے انتخابی مہم کےدوان جو سہانے سپنے دکھائے تھے وہ چکنا چور ہوچکے۔کوئی وعدہ وفا نہیں ہوا۔ایسا ہی ہے تو آخری ایک برس میں عمران حکومت کونسا الٰہ دین کا چراغ لائے گی جو اب دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی،ہر بچے کو تعلیم اور ہرنوجوان کووزگار مل جائےگا،پیٹرول آدھی قیمت پر مل جائےگا،بجلی کا بل آدھا ہوجائےگا؟
یقیناً ایسا کچھ نہیں ہوگا تو کیوں نہ اپنی قوتوں کو مجتمع کرکے اس لمحے کا انتظار کیا جائے جب کاری ضرب لگائی جاسکے۔ کیوں پی ٹی آئی حکومت کو آخری لمحے پر گرا کرشہادت کے رتبے پر فائز ہونے کا موقع دیا جائے؟ کیوں عمران خان کو موقع دیا جائے کہ وہ ووٹرز سے کہیں کہ 'سارےچوروں' نے مل کر حکومت گرادی ورنہ کورونا وبا ختم ہوتے ہی معیشت بہترکی جارہی تھی اور آخری سال میں ایسی تبدیلی آتی کہ لوگ دیکھتے رہ جاتے۔
جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے تو بدترین حکومت کو بھی آمریت سے بہتر سمجھا جانا چاہیے اور اسے پانچ سال پورے کرنا کاموقع دیا جانا چاہیے۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہیےکہ اپوزیشن اور حکومت کو لالچ میں دیکھ کر کہیں بلی دودھ ہی نہ پی جائے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔