15 فروری ، 2022
یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کا خطرہ ٹلنے لگا اور یوکرین کی سرحد پر تعینات روسی فوجیوں میں سے بعض دستوں کی واپسی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
مغربی میڈیا کے مطابق یوکرین کی سرحد کے نزدیک موجود روسی فوج کے کچھ دستے فوجی بیس میں واپس بھیج دیے گئے ہیں۔
روسی وزارت دفاع کے مطابق سرحدی علاقے کے نزدیک تعینات فوج کے کچھ یونٹس مشقوں کے بعد واپس جا رہے ہیں، جنوبی اور مغربی ملٹری ڈسٹرکٹ کے کچھ دستوں کی فوجی مشقیں مکمل ہو گئی ہیں، فوجی مشقیں مکمل کرنے والے دستے فوجی اڈوں میں واپس جا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ روس نے یوکرین کے نزدیک ایک لاکھ سے زائد فوجیوں کو جمع کیا تھا جس سے روس کے یوکرین پر حملے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔
اس حوالے سے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا کہنا ہے کہ روس یورپ میں جنگ نہیں چاہتا لیکن اس کے سکیورٹی خدشات کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے اور انہیں دور بھی کیا جانا چاہیے۔
روسی صدر کا یہ بیان سرحد سے فوجیوں کی واپسی کی خبر سامنے آنے کے کچھ دیر بعد سامنے آیا۔
ماسکو میں جرمن چانسلر اولاف شولتس سے چار گھنٹے طویل ملاقات کے بعد گفتگو کرتے ہوئے ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ ’ہم جنگ چاہتے ہیں یا نہیں؟ بلاشبہ ہم نہیں چاہتے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے مذاکرات کا عمل آگے بڑھانے کی تجویز پیش کی ہے۔‘
میڈیا سے گفتگو کے دوران جب ولادیمیر پیوٹن نے یوگوسلاویہ جنگ کا ذکر چھیڑا تو جرمن چانسلر نے ان سے اختلاف کیا۔
پیوٹن نے کہا کہ یورپ میں جنگ میں مثالیں موجود ہیں جیسا کہ 90 کی دہائی میں یوگوسلاویہ کا تنازع جب نیٹو نے سکیورٹی کونسل کی منظوری کے بغیر سربیا پر جنگ مسلط کردی تھی۔
اس موقع پر جرمن چانسلر نے پیوٹن کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ وہ صورتحال یکسر مختلف تھی اور اس وقت سرب قوم کی جانب سے غیر سربیائی افراد کی نسل کشی کا خطرہ تھا۔
اس پر پیوٹن نے کہا کہ یوکرین کے مشرقی خطے دنباس میں بھی یہی ہورہا تھا جب روس علیحدگی پسندوں کی حمایت کر رہا تھا، وہاں بھی روسی نسل کے باشندوں کی نسل کشی کا خطرہ تھا۔
بعد ازاں جرمن چانسلر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ روسی صدر نے یوکرین کے معاملے پر نسل کشی کا لفظ غلط طور پر استعمال کیا۔
پیوٹن کا مزید کہنا تھا کہ نیٹو اب تک روس کے تحفظات دور کرنے میں ناکام رہا ہے، یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کے معاملے کو فوری طور پر حل کیا جائے ۔
اس معاملے پر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’روس کے ساتھ سفارتی روابط کی بحالی کے آثار سامنے آرہے ہیں تاہم موصول ہونے والی انٹیلی جنس رپورٹس زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔‘
جانسن نے کہا کہ ’اگر روس جنگ کی طرف جاتا ہے تو ہم نے اس کیلئے سخت ترین پابندیوں کا پیکج تیار کر رکھا ہے، ہمارا مؤقف ہے کہ سفارتکاری اور کشیدگی میں کمی ہی واحد راستہ ہے۔‘
یوکرین کی سرحد کے نزدیک موجود روسی فوج کے کچھ دستوں کی واپسی پر برطانوی وزیر خارجہ لِز ٹروس کا کہنا ہے کہ یوکرین کی سرحد پر موجود روسی فوجیوں کی مکمل دستبرداری کی ضرورت ہے، روسی فوجی دستوں کی واپسی کے بارے میں مزید تفصیلات کو دیکھنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ روس دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا یوکرین پر حملے کا ارادہ نہیں ہے، فوج کو یوکرینی سرحد سے مکمل طور پر ہٹا کر روس اس دعوے کو صحیح ثابت کرے۔