22 فروری ، 2022
سیاسی ابر آلود موسم میں مرشد کے خلاف اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کا سوال کھڑا کردے، ایسے میں ڈاکٹر عامر لیاقت تیسری یا چوتھی بار رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جائیں اور پہلی پارٹیاں روتی رہ جائیں تو مرشد کا اپنے مرید کو مبارک باد دینا تو بنتا ہے مگر مرشد کی یہ منطق ہماری عقل کو آج تک چُھو نہیں پائی کہ وہ نہ تو کبھی کسی مرحوم عزیز دوست ، قریبی ساتھی کی نماز جنازہ میں پرسہ دینے گئے نہ ہی انہیں کسی نے اپنے پرائے تحریک انصاف کے دیرینہ کارکن کے مرنے جینے کی خبر گیری کرتے دیکھا۔
وہ کسی کے ہاں اظہار افسوس یا ہمدردی کرنے بھی نہیں جاتے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں درجنوں جوان ،پولیس اہلکار شہید ہوگئے اور مرشد کے اقتدار کو بچانے کی خاطر تحریک لبیک کے دھرنوں ، احتجاجوں میں پولیس اہلکاروں نے جانیں قربان کردیں۔ ان شہداءکے لواحقین اور یتیم بچوں کو مالی امداد ملی نہ ہی ان کے مستقبل کا کوئی تحفظ کیا گیا۔ محض چند سطری تعزیتی پیغامات، ٹویٹس کے سوا وہ کبھی ان شہداءکے لواحقین کا حوصلہ بڑھانے ان کے گھروں میں بھی نہیںجاتے۔
مرشد شادی بیاہ کی تقاریب میں جانا بھی پسند نہیں کرتے تو ایسے ابر آلود موسم میں ڈاکٹر عامر لیاقت ہی وہ واحد خوش قسمت خادم خاص نکلے جنہیں مرشد نے شادیوں کی ہیٹرک مکمل کرنے پر خود فون کرکے مبارک باد پیش کی۔ ایک ہمارے شیخو بابا ہیں کہ کنواروں کی فہرست میں پہلے نمبرپر کھڑے پارلیمنٹ اور زندگی سے تن تنہالڑ رہے ہیں۔ کاش! شیخو بابا کم از کم ایک شادی تو کرلیتے کہ خاتون خانہ اپنے نصیب بھی ساتھ لے آتیں۔ زندگی میں ایک سے دو ہوجاتے ،ممکن تھا کہ قومی اسمبلی میں بھی ان کی ایک سے دو سیٹیں ہو جاتیں۔ ویسے بھی ”قلم... دوات“ کے بغیراچھی نہیں لگتی۔ خیراللہ کی حکمت اللہ ہی جانیں، بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔
ڈاکٹر موصوف کو خوشی کے ان لمحات میں باضابطہ طور پر تیسری بار مبارک باد دینا تو بنتا ہے۔ یہ وہی ماہر ڈاکٹر ہیں جو ماضی قریب میں کہتے تھے ” ہم آئے نہیں لائے گئے ہیں“ اور مرشد کی جدائی ، بے وفائی کا رونا روتے تنہائی میں آنسو بہاتے تھے۔ کیسے نصیب پائے ہیں کہ مرشد کی مبارک باد بطور سلامی وصول پا کر خوشی سے نہال ہو رہے ہیں۔ یقینا انہوں نے اس موقع پر یہ گانا ضرور گنگنایا ہوگا ”دل کے قریب لایا دل کے نصیب رے تو آیا رے“۔ اور جواباً مرشد نے یہی کہا ہوگا کہ ”جب کوئی بات بگڑ جائے، جب کوئی مشکل پڑ جائے، تم دینا ساتھ میرا، او ہمنوا“۔شادیوں کے سیزن میں تحریک عدم اعتماد کی گرم سرد ہوائیں جھکڑ بن کر گرد اُڑا رہی ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن کی تقریب ولیمہ میں ڈاکٹر موصوف خود تشریف لاتے ہیں یا پھر لائے جاتے ہیں۔ مرشد، مرید کا یہ ہنی مون کتنے دن چلے گا؟ یہاں سے وچولن کا کردار ختم ہوا۔ ولیمے کی تیاری زورو شور سے جاری ہے۔ عموماً خوشی کے ایسے موقعوں پر شریکا بھڑک اٹھتا ہے۔ وہ اس تاڑ میں رہتا ہے کہ کب موقع ملے اور اگلے پچھلے گلے شکووں کاحساب پورا کرے۔ سو چوہدری برادران بھی وہی کررہے ہیں۔ چھوٹے میاں14 سال بعد سب سے بڑے کھلاڑی آصف زرداری اور بڑے مولانا صاحب کی چھتر چھاؤں میں چوہدری شجاعت حسین کی قدم بوسی، عیادت کو گئے۔
انہیں بڑے میاں صاحب کے عیادت نامے کے ساتھ ولیمے میں شرکت کا دعوت نامہ بھی پیش کیا۔ یہ چوہدری خاندان کی شان ہے کہ وہ گھر آئے مہمان کو کبھی ناں نہیں کرتے۔ اپنی خاندانی روایات کو نبھانا انہیں خوب آتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جب دو خاندانوں کے درمیان صلح صفائی کا مرحلہ آتا ہے تو بڑے دلائل کے ساتھ ایک دوسرے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں تو درمیان میں نوجوان بھی اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ مونس الٰہی ایک پڑھے لکھے سلجھے نوجوان سیاست دان ہیں جو اپنے والد پرویز الہٰی کا عکس اور ان کی تربیت میں چوہدری شجاعت حسین کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔
مونس الٰہی جو اشارہ بڑوں کی بیٹھک میں احتراماً نہ کرسکے وہ مرشد کے سامنے عالمی سیمینار میں برملا کر دیا کہ ”وزیراعظم تگڑے ہو کر پی ٹی آئی والوں سے کہہ دیں گھبرانا نہیں۔“ مونس الٰہی کا یہ کمال انداز سیاست اب یہ طے کرے گا کہ اپوزیشن کا ولیمہ کامیاب ہوگا یا نہیں۔ آپ اس فقرے کو ہزار بار غور سے دہرائیں تو یہ پیغام صرف مرشد کے نام ہے کہ ہم تو آپ کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن آپ کی پارٹی آپ کے ساتھ انصاف نہیں کرے گی اور ساتھ ہی وچولن سے بھی کہہ دیا کہ کوئی نیا رشتہ تلاش کرو ہم تو سیاسی لوگ ہیں ہمارا کام ہی لوگوں سے ملناہے جن سے تعلق بناتے ہیں اسے نبھاتے بھی ہیں لیکن اگر کوئی خود سے تعلق نبھانا نہ چاہے اور کوئی دوسرا دل سے دوبارہ تعلق بنانا چاہے تو ہم انکار بھی نہیں کرتے۔
مونس الٰہی کے مختصر پیغام پر مرشد کا کھل کھلا کر قہقہہ لگانا صاف ظاہر کرتا ہے کہ وہ آج کل شدید دباؤ میں ہیں۔ اپوزیشن، حکومتی اتحادیوں اور جہانگیر ترین گروپ سمیت سب نے اپنے پتے سینے سے لگا رکھے ہیں۔ اپوزیشن کا پہلا کارڈ لانگ مارچ، دوسرا تحریک عدم اعتماد، ناکامی کی صورت میں اسمبلیوں سے استعفے آخری کارڈ۔ اب یہ فیصلہ فریقین نے کرنا ہے کہ اس نظام کو مزید ڈیڑھ سال چلانا ہے یا بحرانی صورت حال کی دلدل میں دھنستے ہی چلے جانا ہے۔ مرشد کے لئے کوئی خیر کی خبر نظر نہیں آتی۔ اپوزیشن ان کے خلاف آخری حد تک جائے گی۔ اسمبلیوں سے استعفے کا مطلب یہ ہوگا کہ مرشد ضمنی انتخابات کرانے کی پوزیشن میں نہ رہیں اور قبل از وقت انتخابات (ن) لیگ کی بڑی کامیابی ہوگی۔ اب یہ کھیل رُکے گا نہیں۔ اپوزیشن کی بارات آئے گی، ایک اورنکاح ہوگا، ولیمہ بھی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔