24 فروری ، 2022
کوئی بھی فرد، ادارے یا حکومت کی کارکردگی میں دیگر عوامل کی جو بھی اہمیت ہو، اصل و اولین چیز اُس کی اپنی صلاحیت ہوتی ہے۔ کوئی کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہو، اگر صلاحیت کا فقدان ہوگا تو اُس کی طفل تسلیوں سے مایوسی مزید بڑھے گی۔
موجودہ حکومت کی گزشتہ ساڑھے تین سال پر محیط کارکردگی کا جائزہ لیں تو عوامی دکھوں اور پریشانیوں کا ادراک کیا جا سکتا ہے، مہنگائی سے عام آدمی پھٹنے کو آرہا ہے، پیٹرول سے لے کر گھریلو استعمال کی عام چیزوں تک وہ ہوشربا تنگی آ پہنچی ہے کہ عوام جھولیاں اٹھا اٹھا کر حکومت کو کوسنے دیتے نظر آتے ہیں۔
درویش کی نظروں میں مہنگائی کے ساتھ ساتھ مسئلہ بدانتظامی کا بھی ہے۔ بلاثبوت و جواز الزام تراشی اور اپنے سیاسی مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کی موجودہ روش نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ قابلِ صد احترام قومی قیادت اور ہر دلعزیز سیاست دانوں کو اٹھتے بیٹھتے ہمہ وقت چور چور اور ڈاکو ڈاکو پکارنا کیا کسی مہذب انسان کا شیوہ ہو سکتا ہے؟
ابھی افغان جہاد میں امریکی ڈالروں کی ہیرا پھیری اور سوئس اکاؤنٹس کی تفصیلات جس وضاحت کے ساتھ سامنے آئی ہیں، اُن کے متعلق بھی تو کچھ بات ہو۔ ہمارے عوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کس طرح مذموم پروپیگنڈے کا شکار ہو کر جذباتیت میں ہیرو شپ کے عارضے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
عقل و شعور کی بات کرنے والوں کو چھوڑ کر وہ بالعموم کھوکھلے نعرے بازوں، سبز باغ دکھانے والے کھلاڑیوں یا اناڑیوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر بیوقوف کیوں بنتے ہیں، جس کا ڈراپ سین مایوسی، پریشانی اور گھبراہٹ کے سوا بالآخر کوئی اور نہیں۔ اب کے تو بربادی کی وہ سونامی آئی ہے جس میں وہ خود بھی ڈبکیاں لگا رہے ہیں، جو دوسروں کو کہتے تھے کہ گھبرانا نہیں ہے۔ کسی کی گھبراہٹ کا اندازہ اس کے بوکھلاہٹ زدہ اقدامات سے کیا جا سکتا ہے، تنقید تو رہی ایک طرف ایسا شخص تنکے سے بھی ڈر رہا ہوتا ہے۔
عہدِ حاضر میں آزادیٔ اظہارِ رائے کے خاتمے کی سوچ ہٹلر یا مسولینی کے کسی پیروکار کی تو ہو سکتی ہے، عوامی اقتدارِ اعلیٰ پر یقین رکھنے والے کسی جمہوری سیاست دان کی ہر گز نہیں۔ پارلیمنٹ کی موجودگی میں پیکا آرڈی ننس جیسے ڈریکونین قوانین آئین اور انسانی حقوق کا منہ چڑانے کے مترادف ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ فلاں اداروں اور شخصیات پر تنقید ناقابلِ برداشت ہو گی، پانچ سال قید اور بھاری جرمانے ہوں گے، وزراانتخابی دھاندلی کی تراکیب سوچتے ہوئے انتخابی مہم چلا سکیں گے، کیا آپ ایسے اقدامات سے عوامی شعور و آگہی کو کچل سکیں گے؟ عوام کو سوائے مہنگائی، بیروزگاری اور محرومی کے آپ لوگوں نے دیا ہی کیا ہے؟ اُس کے باوجود آپ کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے۔
ملک داخلی محاذ پر ہی کنگال نہیں ہوا بلکہ خارجہ پالیسی میں بدترین حماقتوں کے مظاہروں کے باعث پوری دنیا میں ہمارا مذاق اُڑایا جا رہا ہے، عالمی حالات پر نظر رکھنے والا کوئی بھی شخص ان حالات میں یہ ادراک کر سکتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں کیا پاکستانی قیادت کا روس جانا بنتا تھا؟
اس وقت روس کے پڑوس میں یوکرین بحران کی سنگینی سب کے سامنے ہے، امریکہ اور برطانیہ اس پر پابندیاں لگانے جا رہے ہیں۔ولی خاں ہاتھیوں کی لڑائی میں مینڈکی والا محاورہ بولا کرتے تھے، انسان اپنا جثہ دیکھ کر بات کرے، اپنے گھر کا کوئی ایک مسئلہ آپ سے سنبھالا نہیں جا رہا اور چلے ہیں عالمی ثالثی کروانے۔
کبھی ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالث بننا چاہتے ہیں اور کبھی چین میں اور ساتھ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم امریکہ چین کی سرد جنگ ختم کروا دیں گے، جن کو عالمی سیاست کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں، جو فرانس اور جاپان کا جغرافیہ ملا رہے ہوتے ہیں، جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ ترکوں اور عربوں کی سابقہ تاریخ کیا ہے؟
وہ کبھی مہاتیر کے گن گانے لگتےہیں اور کبھی اردوان کو عثمانی خلیفہ خیال کرنے لگتے ہیں۔ ترکی جاتے ہیں تو اتاترک کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں، ایران پدھارتے ہیں تو خمینی جیسا انقلاب پاکستان میں لانے کے بیانات جاری فرماتے ہیں اور پھر چین اور مائوزے تنگ کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں، ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعدفرماتے ہیں کہ میری حیثیت فلاں ملک کے حکمران جیسی کیوں نہیں۔
لہٰذا حضور چکنی چپڑی باتیں کرنے کی بجائے اپنی قوم کے اصل ایشوز پر توجہ دینے کیلئے وقت نکالیں، عوام غربت بیروزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں رو رہے ہیں، آپ کو پرائی کیا سوجھی ہے ان کے اصل دکھوں کا مداوا فرمائیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔