بلاگ
Time 28 فروری ، 2022

پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ اور سیاسی امکانات!

پاکستان پیپلزپارٹی نے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کےخلاف بالآخر لانگ مارچ کا آغاز کر دیاہے ۔ کراچی سے اسلام آباد تک اس لانگ مارچ کی قیادت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری خود کر رہے ہیں ۔ 

پروگرام کے مطابق اتوار 27فروری کو شروع ہونے والا یہ لانگ مارچ 10 دن بعد منگل 8 مارچ 2022 ء کو راولپنڈی اسلام آباد میں داخل ہو گا ۔ پروگرام کے مطابق اگرلانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد تک پہنچ جاتے ہیں تو یہ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا مختلف لانگ مارچ ہو گا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کے سیاسی اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟

ویسے تو پاکستان میں اسلام آباد کی طرف کئی لانگ مارچ ہوئے اور وہاں دھرنے بھی دیئے گئے لیکن ان میں سے کچھ اپنے اہداف حاصل کرسکے اور کچھ نہیں ۔ ان اسباب کا جائزہ لینا ہو گا ، جو کچھ لانگ مارچز اور دھرنوں کی کامیابی کا باعث بنے یا جن کی وجہ سے وقتی کامیابی نہیں ملی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے سیاسی اثرات ضرور مرتب ہوئے ۔

بلاول بھٹو زرداری کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے 16نومبر 1992ء کو اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا ۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ 1990ء کے عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے ۔

اس تحریک کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی تھی ۔ بعد ازاں 26مئی 1993 ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے دوبارہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا اور وفاقی دارالحکومت کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا ۔ اس احتجاج کے نتیجے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے صدر غلام اسحٰق خان اور وزیر اعظم نواز شریف دونوں کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا ۔

اگرچہ پیپلز پارٹی کے اس لانگ مارچ سے سیاسی اہداف توحاصل ہو گئے لیکن خود پیپلز پارٹی کی قیادت اس کامیابی پر افسوس کا اظہار کرتی رہی کیونکہ اسے بعد میں احساس ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کی اس خالص سیاسی سرگرمی کو اپنے اہداف کےلئے استعمال کیا ، جن کے تحت 1988 سے 1999 ء تک کے سیاسی وقفہ میں جمہوری اور سیاسی حکومتوں کو کمزور کرنا اور آئینی مدت سے پہلے انہیں برطرف کرنا مقصود تھا ۔ قبل ازیں 1989ء میں میاں نواز شریف نے بھی آئی جے آئی کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا ۔

اسی طرح 1993 ء سے 1996 ء تک محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف میاں نواز شریف اور پھر 1997ء سے 1999ء تک محترمہ بے نظیر بھٹو نے میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف تحریک چلائی ۔ بالآخر 14 مئی 2006 ء کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے لندن میں میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے اور جمہوری حکومتوں کے خلاف غیر سیاسی قوتوں کی سازشوں کا حصہ نہ بننے کا عزم کیا ۔

جنرل پرویز مشرف کے خلاف سابق چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری کی قیادت میں چلنے والی وکلاء کی تحریک بھی بظاہر کامیاب رہی ۔ میں خود بھی ایک وکیل ہوں ۔ وکلاء نے ہمیشہ پاکستان کی جمہوری تحریکوں میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا لیکن انہیں بھی یہ احساس ہوا کہ افتخار محمد چوہدری نہ صرف ان کی بلکہ سیاسی قوتوں کی توقعات پر بھی پورا نہیں اترے ۔

اس تحریک سے بھی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اہداف حاصل کئے ، جو بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت جنرل پرویز مشرف کو ہٹاناچاہتی تھی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی ’’ بی ٹیم ‘‘ بن کر افتخار چوہدری کی قیادت میں کام کیا ۔ پیپلز پارٹی نے تو وکلاء تحریک میں بہت زیادہ قربانیاں دیں لیکن بعد ازاں افتخار چوہدری نے چیف جسٹس کے طور پر بحال ہوتے ہی پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت کے لئے مشکلات پیدا کیں۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے عمران خان کی حکومت کے خلاف نومبر 2019ء میں لانگ مارچ اور اسلام آباد میں 13 دن کے دھرنے سے ایوان لرزنے لگے تھے لیکن بظاہر اس میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی ۔ 2013ء اور 2014 ء میں ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے لاہور سے اسلام آباد مارچ اور پھر تحریک انصاف کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنے سے بھی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت ہل کر رہ گئی تھی لیکن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی جماعتوں نے مل کر نواز شریف کی جمہوری حکومت کا دفاع کیا اور حکومت اس جھٹکے سے بچ گئی لیکن 2016 ء میں تحریک انصاف کے دوبارہ دھرنے سے صورت حال بدل گئی ۔

دھرنے کی وجہ سے یہ طے ہوا کہ میاں نواز شریف کے خلاف پاناما کیس عدالت میں چلے گا ۔ پھر اسی کیس میں وزیر اعظم نواز شریف ایوان وزیر اعظم سے جیل چلے گئے۔ اس طرح 2016ء کا تحریک انصاف کا دھرنا کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے ۔

بلاول بھٹو زرداری نے جو لانگ مارچ شروع کیا ہے ۔ وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ لانگ مارچ سے پہلے عمران خان کی حکومت اور ان کے مبینہ پشت پناہوں کے خلاف عوامی جذبات موجود نہیں ۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کچھ سال بعد یہ معلوم ہو کہ طاقت ور حلقے عمران خان کو ہٹانا چاہتے تھے لیکن موجودہ ماحول میں پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کے اثرات بہت گہرے ہوں گے ۔

یہ امکان کم ہے کہ لانگ مارچ سے فوری اہداف حاصل ہوں لیکن اس لانگ مارچ سے پیپلز پارٹی ایک بڑی عوامی سیاسی جماعت کے طور پر دوبارہ ابھر کر سامنے آئے گی کیونکہ وہ اس وقت عوام کے حقیقی ایشوز پر احتجاج کر رہی ہے ۔ جب عوام سڑکوں پر ہوتے ہیں تو سیاسی حرکیات ( ڈائنامکس ) تبدیل ہو جاتی ہیں ۔

یہ لانگ مارچ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے معاملے پر اپوزیشن کو واضح مؤقف لینے پر بھی مجبور کر سکتا ہے ۔ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں بھی اگر اس لانگ مارچ میں عملاً شرکت کریں تو اس کے اثرات مزید گہرے ہو سکتے ہیں ۔

سیاست اور تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہ بات یقین سے کہتا ہوں کہ کسی عوامی سیاست ، جس کا ایجنڈا صرف عوام کے ایشوز ہوں ، کبھی بے نتیجہ ثابت نہیں ہوتی ۔ پاکستان میں عوامی سیاست کو بحال ہونا چاہئے ۔ میں سابق صدر آصف علی زرداری کو پاکستان کی سیاست میں حالیہ ہلچل کا کریڈٹ دیتا ہوں ۔ انہوں نے نہ صرف اپوزیشن رہنماوں کو دوبارہ متحد کیا بلکہ لانگ مارچ کے ذریعے عوامی دباؤ بھی بڑھا دیا ہے ۔ میں پھر کہتا ہوں کہ نتیجہ کچھ بھی ہو ، عوامی سیاست ہی کرنی چاہئے ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔