01 مارچ ، 2022
یوں لگتا ہے جیسے تحریکِ عدم اعتماد کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ اپوزیشن کی گولہ باری میں بتدریج کمی دیکھنے میں آرہی ہے جبکہ حکومتی کیمپ میں اعتماد کے آثار واضح ہیں۔ جہانگیر ترین بیرونِ ملک روانہ ہو چکے ہیں۔ چوہدری صاحبان کی طرف سے کچھ کڑی شرائط سامنے رکھ دی گئی ہیں۔
اگرچہ چوہدری پرویز الٰہی اور مسلم لیگی ترجمان، دونوں نے اس نوعیت کی شرائط کی بظاہر تردید کی ہے لیکن باخبر ذرائع اس بات پر مصر ہیں کہ اپوزیشن اور چوہدری صاحبان کے مابین مذاکرات میں ڈیڈ لاک مطالبات کی وجہ سے سامنے آیا ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی نے اپنا لانگ مارچ شروع کر دیا ہے لیکن دو ہفتے جاری رہنے والی اس سر گرمی نے پاکستانی عوام کی آنکھیں کھول دی ہیں۔
باشعور طبقات کھلے بندوں یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا جمہوریت صرف اسی چیز کا نام ہے کہ اقتدار میں اپنا اپنا حصہ کیسے وصول کیا جائے؟ ماضی میں بھی تحریکِ عدم اعتماد کی مشق متعدد مرتبہ کی جا چکی ہے۔ دیکھا جائے تو دنیا بھر میں ایک سو سے زائد سربراہانِ مملکت تحریکِ عدم اعتماد کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ دنیا کی تمام جمہوریتوں میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی ایک معمول کا عمل ہے۔ پاکستان میں بھی اس عمل پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں کسی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی۔
تاہم ایک مرتبہ 1986میں اسپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی جس کے بعد جناب حامد ناصر چٹھہ کو قومی اسمبلی کا اسپیکر منتخب کیا گیا تھا۔ اِس کے علاوہ حکومت کے خلاف کوئی تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکی۔ یادش بخیر جب میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے، جب ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی بازگشت سنائی دی تو اُس وقت کے صدر ضیاء الحق لاہور تشریف لے آئے اور خم ٹھونک کر اعلان کیا کہ میاں نواز شریف کا کلہ مضبوط ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت ضیاء الحق صدرِ مملکت ہونے کے ساتھ ساتھ حاضر سروس آرمی چیف بھی تھے جن کی سر پرستی کے باعث میاں نواز شریف کا کلہ مضبوط قرار پایا۔
پاکستانی سیاست کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر کون سی وجوہات تھیں جنہوں نے سیاست کے ٹھہرے پانی میں تلاطم برپا کر دیا۔ وہ کون سے اسباب ہیں جن کی بنا پر چائے کی پیالی میں طوفان آگیا۔ وہ کون سے مقاصد تھے جن کے حصول کے لیے بسترِ علالت پر موجود آصف علی زرداری نوجوانوں کی طرح چلتے پھرتے نظر آئے، وہ کون سی وجوہات تھیں جن کی بناپر کمر درد کے شکار میاں شہباز شریف بھی اچانک متحرک اور فعال ہو گئے۔ قوم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ کون سی مجبوری تھی جو میاں شہباز شریف کو چوہدری پرویزالٰہی کے دروازے پر لے گئی، وہ کون سی وجوہات تھیں جن کی بنا پر پی ڈی ایم سے نکلنے والی جماعت کے سربراہ آصف علی زرداری اسی پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملنے ان کے گھر پہنچ گئے، کیا ان سب احباب کا ملنا جلنا پاکستان کو درپیش مالی مشکلات سے متعلق تھا؟
ہر پاکستانی دبے لہجے میں یہ پوچھ رہا ہے کہ کیا تمام اپوزیشن رہنما ایف اے ٹی ایف میں درپیش مشکلات کا حل نکال نکالنے کے لیے جمع ہوئے تھے؟ کیا روس اور یوکرین کے جھگڑے کے دوران پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خدوخال سنوارنے کے لیے ساری اپوزیشن جماعتیں بیٹھک کر رہی تھیں،جب ان رہنماؤں کے بیانات اور پریس کانفرنس دیکھتے ہیں تو جواب نفی میں آتا ہے۔ تمام رہنماؤں کا متفقہ مقصد عمران خان کی حکومت کو گرانا ہے، گفت و شنید کا موضوع پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ ہے، بند کمروں میں ہونے والی گفتگو کا محور و مرکز، مرکز میں اقتدار کی تقسیم کا فارمولہ ہے، اِس ساری کشمکش کے دوران عام آدمی کے مسائل کا تذکرہ کہاں ہے؟
کیا اِس طرح کے رویوں نے عام آدمی کا اعتماد ختم نہیں کر دیا؟ توقع تو یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمٰن جو دینی طبقہ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ہیں وہ ان مسائل پر بات کریں گے کہ جن سے ہماری دینی شناخت کو خطرہ ہے؟ پاکستان پیپلز پارٹی جو سی پیک کی بانی سمجھی جاتی ہے اس سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ سی پیک پر سست روی کے معاملے پر سر جوڑ کر بیٹھے گی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) جو ملک کو درست معاشی سمت پر رکھنے کی دعویدار ہے وہ مہنگائی میں کمی کیلئے معاشی اصلاحات کا ایجنڈا لے کر عوام کے پاس جائیگی۔ عوامی نیشنل پارٹی، جس کے پاس جمہوریت کیلئے قربانیوں کی طویل تاریخ ہے، سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ جمہوری روایات کے استحکام کا علم بلند کرے گی۔ کاش یہ سب رہنما بلوچستان کے معاملہ پر اکٹھے ہوتے اور ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لاتے؟
کاش یہ سب سیاسی جماعتیں آبی وسائل کی کمی پر اکٹھی ہوتیں اور کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے کیلئے راہ ہموار کرتیں۔ پاکستانی سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے رہنماؤں نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کئی کئی مرتبہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے والے، اداروں کی جانب داری اور غیرجانب داری کی بچگانہ بات کر رہے ہیں۔ دشتِ سیاست میں نصف صدی گزارنے والا رہنما کہتا کہ ہاتھ اٹھا لیا گیا ہے جبکہ حکومتی کیمپ کا ترجمان بازو لہرا کر کہہ رہا ہے کہ ہاتھ ہمارے سر پر ہے۔ یہ رویے عوام اور عوامی مینڈیٹ کی توہین ہیں جو کسی طور بھی قابلِ تحسین نہیں۔ میری دانست میں تحریکِ عدم اعتماد دم توڑ چکی ہے اور عمران حکومت پانچ سال پورے کرے گی اور اپوزیشن نے اسی بچگانہ رویہ کا اظہار جاری رکھا تو اس کا مستقبل روشن قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔