28 مارچ ، 2022
اسلام آباد: اسلام آباد میں ہونے والے جلسے کو جسے ’’امر بالمعروف‘‘ کا نام دیا گیا تھا گوکہ حاضرین کی تعداد کے اعتبار سے یقیناً ایک بھرپور اور پرجوش جلسہ تھا جس میں بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل تھیں لیکن شرکاء کی تعداد کے حوالے سے جو پیشگی دعوے کیے جارہے تھے ان سے بہت دورتھا۔
وزیراعظم کی تقریر کا بیشتر حصہ حکومت کی کارکردگی، اپوزیشن کے قائدین کے نام بگاڑ کر ان پر تنقید، الزامات اور انہی واقعات کا تذکرہ جو وزیراعظم اس سے قبل متعدد جلسوں میں کر چکے ہیں پر مشتمل تھا۔
البتہ تقریر کا آخری حصہ قدرے چونکا دینے والا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یقیناً وزیراعظم کو اب اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ اپنے داخلی معاملات میں دوسرے ممالک کا ذکر کرنا اور اس میں سفارتی تقاضوں اور باریکیوں کو ملحوظ نہ رکھنا خارجہ امور میں کتنی دشواریاں پیدا کر سکتا ہے اس لئے انہوں نے وہ خط تو نہیں پڑھا اور محض لہرا کر جیب میں رکھ لیا ۔
لیکن اس کا لکھا ہوا مؤقف چشمہ لگا کر جلسے میں پڑھا جسے پڑھنے میں انہیں خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا، وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر کے آخری مراحل میں 70 کی دہائی میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کرتے ہوئے سیاسی تاریخ کا ایک حوالہ یوں دیا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو آزاد خارجہ پالیسی دینے کی کوشش کی تو مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف کی اس وقت کی پارٹیوں نے بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور آج جیسے حالات پیدا کر دیے جس کی وجہ سے انہیں پھانسی ہوگئی.
ذوالفقار علی بھٹو نے 28 اپریل 1977 کوقومی اسمبلی میں کہا تھا کہ قومی اتحاد میرے خلاف ایک ساز ش ہے جو ایک بڑی قوت کے ذریعے میرے خلاف تیار کی گئی ہے ’’ سفید ہاتھی‘‘ میرے خون کا پیاسا ہوچکا ہے لیکن میں اس کا مقابلہ کروں گا۔
پھر اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں بھٹو صاحب اچانک ہی ایک دن راولپنڈی صدر کے معروف بازار میں آگئے اور وہاں میگا فون پر امریکی سینٹر کے سامنے ’’ سفید ہاتھی‘‘ کے خلاف نہ صرف تقریر کی بلکہ اپنی کوٹ کی جیب سے ایک خط نکال کر بھی لہرایا جس میں بقول ان کے ’’ سفید ہاتھی‘‘ کی جانب سے پیغام دیا گیا تھا کہ ’’ THE PARTY IS OVER‘‘ بھٹو صاحب نے یہ کاغذ لہراتے ہوئے کہا تھا کہ میں ’’ سفید ہاتھی‘‘ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ’’ PARTY IS NOT OVER‘‘ اس کے بعد کی تفصیل طویل ہے ، لیکن یقیناً اس صورتحال سے آگاہی رکھنے والے لوگ واقعات میں مماثلت تلاش کرتے ہوں گے۔
تاہم اپوزیشن رہنما خورشید شاہ نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ بھٹو صاحب نے وہ خط کھول کر عوام کو دکھایا تھا اب عمران خان بھی کل پارلیمنٹ میں یہ خط کھول کر دکھا دیں جبکہ شاہ محمودقریشی کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ مذکورہ خط ’’ آف دی ریکارڈ‘‘ بھی دکھایا جائے۔ انہوں نے اس خط کو ’’خفیہ دستاویز‘‘ قرار دیا جس کا ذکر انہوں نے جلسہ عام میں کیا تھا۔
وزیراعظم کی تقریر کے دوران شاہ زین بگٹی بھی اپوزیشن سے جا ملے ، اسی دوران ایسی خبریں بھی میڈیا پر آئیں جن میں مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ایک اہم ملاقات اگلے روز نتیجہ خیز ہونے کی توقع کے ساتھ ختم ہوئی ہے.
مریم نواز اسلام آباد آرہی ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمان اسلام آباد میں جو دو دن پہلے ہی خیمہ زن ہوچکے ہیں جنہوں نے اپنے کارکنوں سے خطاب کے دوران اتوار کی شب وزیراعظم کے جلسے پر بھرپور انداز میں تنقید کی ہے ۔