وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو کیا ہوگا؟

پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی نُقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے، عمران خان وزیراعظم کی کرسی پر مزید براجمان رہیں گے یا نہیں اس بات کا فیصلہ اتوار 3 اپریل کو ہوجائے گا— فوٹو: فرخ حبیب ٹوئٹر
پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی نُقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے، عمران خان وزیراعظم کی کرسی پر مزید براجمان رہیں گے یا نہیں اس بات کا فیصلہ اتوار 3 اپریل کو ہوجائے گا— فوٹو: فرخ حبیب ٹوئٹر

پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی نُقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے، عمران خان وزیراعظم کی کرسی پر مزید براجمان رہیں گے یا نہیں اس بات کا فیصلہ اتوار 3 اپریل یعنی آج ہوجائے گا۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے جمع کرائی جانے والی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 3 اپریل کو ہوگی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس صبح ساڑھے 11 بجے طلب کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا طریقہ کیا ہے؟

وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر قوم سے خطاب میں واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیں گے اور آخری گیند تک کھیلیں گے، یعنی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ پکی ہے۔

تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے نتیجے سے تو ہم اج آگاہ ہو ہی جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو کیا ہوگا؟ عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو کیا ہوگا؟ آئیے ان سوالوں کے جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے کتنے ووٹ درکار ہوں گے؟

ووٹنگ والے دن اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کیلئے 172 ارکان کی حمایت درکار ہوگی— فوٹو: فائل
ووٹنگ والے دن اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کیلئے 172 ارکان کی حمایت درکار ہوگی— فوٹو: فائل

آئین پاکستان کے تحت کسی بھی وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے موجودہ اسمبلی کی کُل تعداد کی سادہ اکثریت کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت جب قائم ہوئی تو ایوان زیریں میں مجموعی ارکان کی تعداد 342 تھی تاہم تحریک انصاف کے ایک رکن قومی اسمبلی خیال زمان خان انتقال کرگئے اور اب ایوان 341 ارکان پر مشتمل ہے۔ آئین کے تحت  تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سادہ اکثریت ثابت کریں لہٰذا ووٹنگ والے دن اپوزیشن کو  تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کیلئے 172 ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔

تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو کیا ہوگا؟

اگر اپوزیشن ووٹنگ والے دن 172 ارکان اسمبلی کو اپنے حق میں پیش نہ کرسکی تو تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی اور وزیراعظم اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے— فوٹو: فائل
اگر اپوزیشن ووٹنگ والے دن 172 ارکان اسمبلی کو اپنے حق میں پیش نہ کرسکی تو تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی اور وزیراعظم اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے— فوٹو: فائل

اگر اپوزیشن ووٹنگ والے دن 172 ارکان اسمبلی کو اپنے حق میں پیش نہ کرسکی تو تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی اور وزیراعظم اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے اور حکومت کا کاروبار معمول کے مطابق جاری رہے گا۔

کہا جاتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد اگلے چھ ماہ تک دوبارہ کوئی عدم اعتماد کی تحریک نہیں لائی جاسکتی البتہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب نے جیو سے گفتگو میں بتایا کہ آئین میں ایسی کوئی قدغن نہیں کہ 6ماہ تک دوبارہ تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہوسکتی۔

 انہوں نے بتایا کہ عملی طور پر بہرحال ایک تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد فوری طور پر دوسری تحریک کا آنا ممکن نہیں ہوتا اور اس میں وقت درکار ہوتا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو کیا ہوگا؟

وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو انہیں فوری طور پر عہدے سے سکبدوش تصور کیا جائے گا— فوٹو: فائل
وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو انہیں فوری طور پر عہدے سے سکبدوش تصور کیا جائے گا— فوٹو: فائل

 1-وزیراعظم عہدے سے فارغ ہوجائیں گے

وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو انہیں فوری طور پر عہدے سے سکبدوش تصور کیا جائے گا کیوں کہ آئین میں لکھا ہے کہ ’اگر عدم اعتماد کی قرارداد قومی اسمبلی کی مجموعی رکنیت کی اکثریت سے منظور کرلیا جائے تو وزیراعظم عہدے پر فائز نہیں رہے گا۔‘

یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ وزیراعظم صرف عہدے سے فارغ ہوں گے رکن قومی اسمبلی برقرار رہیں گے۔

2- وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہوجائے گی

اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران کی کابینہ بھی تحلیل ہوجائے گی البتہ اسپیکر اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔

3- اعتماد کھونے والے وزیراعظم نئے وزیراعظم کے انتخاب تک کام جاری رکھ سکتے ہیں

سربراہ پلڈاٹ احمد بلال کے مطابق تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے باوجود صدر مملکت اگر چاہیں تو وہ وزیراعظم سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ نئے وزیراعظم کا انتخاب ہونے تک کام جاری رکھیں البتہ ایسا ضروری نہیں یہ صدر کی صوابدید ہے۔ ایسی صورت میں یہ ایک عارضی سیٹ اپ ہوگا تاکہ کوئی خلاء نہ رہے۔

احمد بلال کے مطابق آئین کا آرٹیکل 94 یہی کہتا ہے کہ صدر مملکت چاہیں تو اس وزیراعظم کو جس کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی ہو، نئے وزیراعظم کے انتخاب تک کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں اور اس حوالے سے مدت کا تذکرہ نہیں ہے کہ کب تک اعتماد کھونے والا وزیراعظم صدر کی ہدایت پر عہدے پر کام جاری رکھ سکتا ہے۔

اس حوالے سے ایک رائے یہ ہے کہ صدر مملکت جب تک چاہیں وزیراعظم کو کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں تاہم بعض ماہرین کہتے ہیں ایسا اعتماد کھونے والے وزیراعظم کے کیس میں ممکن نہیں، اسے فوری طور پر عہدہ چھوڑنا ہوگا۔

ماہر قانون اور تجزیہ کار ریما عمرنے بھی کہا ہے کہ صدر مملکت صرف اسی صورت میں وزیراعظم کو نئے وزیراعظم کے انتخاب تک عبوری مدت کے لیے عہدہ سنبھالنے کو کہہ سکتے ہیں جب وزیراعظم نے خود استعفیٰ دیا ہو تاہم عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں آئین میں واضح ہےکہ ایوان کو نیا وزیراعظم منتخب کرنا ہوگا۔

4- نئے وزیراعظم کا انتخاب

اسمبلی بزنس رولز کے مطابق کسی بھی وجہ سے اگر وزیراعظم کا عہدہ خالی ہوجائے تو قومی اسمبلی اپنی ہر کارروائی چھوڑ کر وزیراعظم کا انتخاب سب سے پہلے کرے گی— فوٹو: شہباز گل ٹوئٹر
اسمبلی بزنس رولز کے مطابق کسی بھی وجہ سے اگر وزیراعظم کا عہدہ خالی ہوجائے تو قومی اسمبلی اپنی ہر کارروائی چھوڑ کر وزیراعظم کا انتخاب سب سے پہلے کرے گی— فوٹو: شہباز گل ٹوئٹر

سربراہ پلڈاٹ کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد یہ ظاہر سی بات ہے کہ نئے وزیراعظم کا انتخاب کوئی بہت زیادہ طویل مرحلہ نہیں بلکہ چند دنوں کی بات ہوتی ہے۔

اسمبلی بزنس رولز کے مطابق کسی بھی وجہ سے اگر وزیراعظم کا عہدہ خالی ہوجائے تو قومی اسمبلی اپنی ہر کارروائی چھوڑ کر وزیراعظم کا انتخاب سب سے پہلے کرے گی البتہ یہاں بھی نئے وزیراعظم کے انتخاب کیلئے وقت کی قید کا تذکرہ موجود نہیں۔

وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو کیا ہوگا؟

احمد بلال کے مطابق جیسے ہی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی قومی اسمبلی کا جاری سیشن ختم ہوجائے گا۔ اس کے بعد صدر مملکت اگلے دن یا ایک دن کے وقفے سے اسپیکر قومی اسمبلی کو اجلاس طلب کرنے کی ہدایت دیں گے جس کے بعد اجلاس ہوگا اور نئے وزیراعظم کے انتخاب کی کارروائی آگے بڑھائی جائے گی اور دو تین دن میں نئے وزیراعظم کا انتخاب مکمل ہوجائے گا۔

کیا اسپیکر قومی اسمبلی بھی تبدیل ہوں گے؟

عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کرنے والا اتحاد اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کیخلاف بھی تحریک عدم اعتماد لاکر انہیں عہدے سے ہٹا سکتا ہے اور پھر اپنا اسپیکر منتخب کرکے نئے وزیراعظم کا انتخاب عمل میں لایا جاسکتا ہے— فوٹو: فائل
عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کرنے والا اتحاد اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کیخلاف بھی تحریک عدم اعتماد لاکر انہیں عہدے سے ہٹا سکتا ہے اور پھر اپنا اسپیکر منتخب کرکے نئے وزیراعظم کا انتخاب عمل میں لایا جاسکتا ہے— فوٹو: فائل

چونکہ اسپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب بھی سادہ اکثریت سے ہوتا ہے لہٰذا وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی قرارداد منظور ہونے کے بعد اخلاقی طور پر وہ بھی ایوان کا اعتماد کھو دیتا ہے اور اسے عہدے سے الگ ہوجانا چاہیے البتہ اگر ایسا نہ ہو تو عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کرنے والا اتحاد اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کیخلاف بھی تحریک عدم اعتماد لاکر انہیں عہدے سے ہٹا سکتا ہے اور پھر اپنا اسپیکر منتخب کرکے نئے وزیراعظم کا انتخاب عمل میں لایا جاسکتا ہے۔

دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر نئے وزیراعظم کے انتخاب تک ایوان کی کارروائی چلائیں اور پھر خود مستعفی ہوجائیں۔ نئے وزیراعظم کا انتخاب ہوتے ہی جو لوگ حکومت میں تھے وہ اپوزیشن بینچز پر چلے جائیں گے اور اپوزیشن والے حکومتی بینچز پر آجائیں گے۔ پھر نئی کابینہ تشکیل دی جائے گی اور حکومت کا کاروبار آگے بڑھے گا۔

عدم اعتماد کامیاب ہونے کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کی صوابدید ہوگی کہ وہ فوری نئے انتخابات کا اعلان کردے یا پھر بقیہ مدت پوری کرکے وقت پر الیکشن کا انعقاد کرے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔