03 اپریل ، 2022
ملک میں سیاسی درجہ حرارت کافی بڑھ گیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہیں، وزیراعظم عمران خان کو اپنا عہدہ بچانے کا چیلنج درپیش ہے جبکہ اپوزیشن عمران خان کو گھر بھیج کر اقتدار میں آنے کی امید میں ہے۔
کیا ایسا ہوگا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا اور یہ وقت زیادہ دور نہیں، 3 اپریل کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
وزیراعظم عمران خان کیخلاف اپوزیشن کی پیش کردہ قرار داد کا نتیجہ کیا ہوگا یہ تو بعد کی بات ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد وہ کن مراحل سے گزرتی ہے اور وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے کیلئے رائے شماری کا طریقہ کار کیا ہے؟
آئیے آپ کو بتاتے ہیں:
کسی بھی وزیراعظم کو آئینی طریقے سے عہدے سے ہٹانا ہو تو پاکستان کا قانون اس حوالے سے بالکل واضح ہے۔
سب سے پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 95 A کے تحت قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں ووٹ آف نو کانفیڈنس VOTE OF NO CONFIDENCE کی تحریک جمع کرائی جائے جو اپوزیشن جماعتوں نے 8 مارچ کو جمع کرادی ہے۔
اگر پارلیمنٹ کا اجلاس جاری نہ ہو تو تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ آئین کے آرٹیکل 54 کی شق نمبر 3 کے تحت اجلاس بلانے کی درخواست بھی جمع کرائی جاتی ہے جسے حرف عام میں REQUISITION ریکوئزیشن کہتے ہیں۔
جب یہ ریکوئزیشن قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو موصول ہوجائے تو آئین کے تحت اسپیکر اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ ریکوئزیشن موصول ہونے کے 14 دن کے اندر جس روز بہتر سمجھے اجلاس طلب کرے۔
حکومت نے 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا اور پہلے دن مرحوم رکن اسمبلی کیلئے فاتحہ خوانی ہوئی جس کے بعد اسپیکر نے اجلاس پیر 28 مارچ تک ملتوی کردیا۔
28 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ ہوا جس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔ عمران خان پاکستان کے تیسرے وزیراعظم بن گئے ہیں جن کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے۔
اب چونکہ تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی ہے لہٰذا آئین کے مطابق اس پر رائے شماری کا مرحلہ آتا ہے اور رائے شماری تحریک پیش ہونے کے تین دن بعد اور 7 دن سے پہلے پہلے کرانا ضروری ہے۔
ڈپٹی اسپیکر نے اب 3 اپریل تک اجلاس ملتوی کیا ہے اور یہ ووٹنگ کرانے کا آخری دن ہے بصورت دیگر وزیراعظم عمران خان از خود عہدے سے فارغ ہوجائیں گے۔
تحریک عدم اعتماد چونکہ ایک تاریخی لمحہ ہوتا ہے لہٰذا اس روز پورے ملک کی نظریں قومی اسمبلی پر ہوتی ہیں اور کافی گہما گہمی ہوتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا طریقہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں موجود وہ ارکان جو چاہتے ہیں کہ وزیراعظم کو عہدے سے ہٹا دیا جائے وہ اپنی نشستوں سے اٹھ کر ایک طرف ہوجاتے ہیں اور ان کی تعداد کو گِن لیا جاتا ہے۔
اسی طرح وہ ارکان اسمبلی جو چاہتے ہیں کہ وزیراعظم عہدے پر برقرار رہیں ان کے پاس یہ چوائس ہوتی ہے کہ وہ اپنی نشستوں پر براجمان رہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اگر حکومت کا کوئی رکن اٹھ کر اپوزیشن کی جانب چلا جائے تو اس کی نشاندہی بھی ہوجائے۔ایسے رکن اسمبلی پر فلور کراسنگ کی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے اور بات نا اہلی تک جاسکتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے جادوئی نمبر ’172‘ ہے جو کہ موجودہ ایوان کی کل تعداد کی سادہ اکثریت ہے۔ چونکہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن نے جمع کرائی ہے لہٰذا یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ رائے شماری والے دن وزیراعظم کیخلاف 172 ارکان کو پیش کریں۔
اگر اپوزیشن 172 ارکان کی حمایت پیش کرنے میں ناکام رہی تو وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی اور وہ عہدے پر براجمان رہیں گے۔
تاہم اگر اپوزیشن 172 یا اس سے زائد ارکان کو سامنے لے آئی تو وزیراعظم کو عہدہ چھوڑنا پڑے گا ساتھ ہی ان کی پوری کابینہ بھی تحلیل ہوجائے گی۔ یہ ہے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا آسان سا طریقہ۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔