Time 01 اپریل ، 2022
بلاگ

وزیراعظم عمران خان کی مسکراہٹ سے ان کے ’’نو کمنٹس‘‘ تک

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے اور آخری بال تک لڑیں گے، ساتھ ہی اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگی۔ وزیراعظم کا اصرار تھا کہ یہ غیر ملکی معاونت سے ہونے والی ایک سازش ہے۔

 جمعرات کو دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وہ سازش کی تفصیلات جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ سازش ایک با اثر ملک نے تیار کی ہے اور مقامی کھلاڑیوں کی مدد سے اسے عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ تاہم، انہوں نے تفصیلات میں جانے سے گریز کیا لیکن جب اُن سے اصرار کیا گیا تو وہ مسکرا دیے۔ 

موجودہ سیاسی صورتحال کے حل کیلئے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات میں سہولت کیلئے پس منظر میں کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر بھی وزیراعظم نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس پر تبصرہ نہیں کریں گے لیکن فوراً ہی یہ بھی کہا کہ وہ آخر تک لڑیں گے اور کوئی غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقہ اختیار نہیں کریں گے۔ 

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ وزیراعظم کو ہٹانے کیلئے اپوزیشن والے غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی کنفیوژن نہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک غیر ملکی سازش کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ انہیں عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں، اسلام آباد میں ایسی تابعدار حکومت لانا چاہتے ہیں جو اُس غیر ملک کے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ 

عمران خان نے اُس غیر ملک کا نام نہیں بتایا اور یہ بھی نہیں بتایا کہ مشکوک سفارتی مراسلے میں پاکستان کو کیا پیغام دیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اُن کی حکومت نے خط کے مندرجات کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی، پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی اور دیگر بشمول صحافیوں کو بتا دیے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ چونکہ خط میں دی گئی دھمکی کے حوالے سے مندرجات سب کے سامنے ہیں، اسلئے وہ توقع کرتے ہیں کہ ارکان پارلیمنٹ اور عوام اس غیر ملکی دھمکی سے نمٹنے کیلئے عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنائیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ مبینہ طور پر اپوزیشن والوں کی طرح ارکان پارلیمنٹ کا ضمیر خریدنے کیلئے رقم دے سکتے ہیں اور نہ ہی غیر قانونی طریقے استعمال کر سکتے ہیں۔ اچھائی کا ساتھ دینے اور برائی سے بچنے کی اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم خان نے افسوس کا اظہار کیا کہ سیاسی رہنمائوں کا رویہ اسلامی تعلیمات سے بہت دور ہے۔

 اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اپوزیشن اور حکومت کو موجودہ سیاسی صورتحال کے حل کیلئے مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے کی کوششوں کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ متعلقہ جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ میڈیا رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے پیشکش کی تھی کہ عدم اعتماد کی تحریک واپس لی جائے تو جلد انتخابات کرائے جا سکتے ہیں لیکن اپوزیشن عدم اعتماد کی تحری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔

 کچھ اپوزیشن لیڈر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے اقدام کے پیچھے عمران خان ہی تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اقدام کے پیچھے وزیراعظم یا حکومت نہیں تھی۔ 23 مارچ کو دی نیوز نے خبر جاری کی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت میں سہولت پیدا کرنے کیلئے آمادگی ظاہر کردی ہے تاکہ متفقہ قومی ایجنڈا اور معاشی استحکام لایا جا سکے۔

 ایک باخبر ذریعے نے دی نیوز کو بتایا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کسی کا ساتھ نہیں دے گی بلکہ نیوٹرل رہے گی لیکن ساتھ ہی وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن رہنماؤں کی حوصلہ افزائی کرے گی کہ وہ مل بیٹھیں اور بات چیت کے بہتر مستقبل، مضبوط معیشت اور سیاسی استحکام کیلئے لائحہ عمل تیار کریں۔ 

ٹی وی ٹاک شو میں پیش کی گئی چند تجاویز پر اسٹیبلشمنٹ نے رد عمل ظاہر کیا تھا، ان تجاویز میں حکومت اور اپوزیشن کی حوصلہ افزائی کرکے انہیں مل بیٹھ کر بات کرنے پر آمادہ کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ خیال یہ تھی کہ دونوں فریق بیٹھ کر ایک ایجنڈا پر بات کریں تاکہ ملک اور عوام کا بھلا ہو۔ کہا گیا تھا کہ وہ یہ بھی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ رواں سال جلد الیکشن کرائے جائیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔