01 اپریل ، 2022
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مدثر نارو بازیابی کیس میں ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگی بغاوت ہے اور اس پر بغاوت کا مقدمہ بنتا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی سربراہی میں مدثرنارو بازیابی کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور عدالتی معاون عدالت میں پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آئین کے تحت چلنے والے ملک میں جبری گمشدگیاں ناقابل قبول ہیں، کیا مدثرنارو کو تلاش نہ کر پانا ریاستی اداروں کی ناکامی ہے؟ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے یہ سب دیکھنا تھا ناں، کیا اُن کی مرضی کے بغیرکسی کو لاپتا کیاجاسکتاہے؟ نہیں کیاجاسکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لوگوں کا مسنگ ہوجانا ریاست کی نااہلی ہے، پھر وہ ٹریس بھی نہیں ہوپاتے، جبری گمشدگی پر دہشتگردی کی دفعات لگتی ہیں، اگر ریاستی ادارے ایگزیکٹو کے کنٹرول میں نہیں تو ایگزیکٹو ذمہ دارہے، کیوں نہ چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرائیں؟
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جبری گمشدگی بغاوت ہے، اس پر بغاوت کا مقدمہ بنتا ہے۔