05 اپریل ، 2022
کچھ ہفتے قبل میں نے ایک کالم تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’عدم اعتماد کی قیمت‘‘۔ اپنے اُس کالم میں مَیں نے یہی تجزیہ پیش کیا تھا کہ ملک کو اِس عدم اعتماد کی ایک بھاری قیمت چکاناپڑے گی کیونکہ وزیراعظم اور اُن کے معاونین یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ اگر وہ حکومت سے جائیں گے تو خاموشی سے نہیں جائیں گے، اول تو وہ اپنےا قتدار کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے لیکن پھر بھی نہ بچا پائے تو اپوزیشن کو جس قدر نقصان پہنچا سکے ، ضرور پہنچائیں گے اِس بات سے برعکس کہ اِس سے جمہوریت، آئین اور ملک کو کتنا نقصان پہنچتا ہے۔
جس روز عدم اعتماد کی ووٹنگ ہونا تھی، اُس روز بھی یہی توقع کی جا رہی تھی کہ عمران خان کے حامی یا تو استعفیٰ دیں گے یا پھر کچھ ایسا ماحول بنائیں گے جس میں تیسری قوت کو آنا پڑے گا اور کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک ایسا آئینی بحران پیدا کیا گیا جس کی وجہ سے سپریم کورٹ کو اِس مسئلے میں کُودنا پڑا۔ جب بھی سیاستدان ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جن میں سپریم کورٹ یا کسی اور ادارے کی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے تو اِس سے ہماری جمہوریت اور سیاست دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اب جبکہ ہم اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں تو وہ کیا قیمت ہے جو ہمیں چکانا پڑی ہے اور مزید چکانی پڑ سکتی ہے؟
اِس ضمن میں جو سب سے بڑی قیمت ہم نے ادا کی ہے وہ ہمارے آئین کی بالادستی کی ہے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں آئین کو ہمیشہ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا سمجھا گیا ہے، متعدد مارشل لا اِس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارے آئین کیساتھ کیا کیا کھلواڑ نہیں ہوا۔ ہم ہمیشہ آئین کی بےحرمتی کا کوئی نہ کوئی نت نیا طریقہ نکالتے رہے ہیں۔
اتوار کے روز عدم اعتماد، جس کا پورا آئینی طریقہ کار موجود ہے، نہ صرف اُس طریقہ کار کو پس پشت ڈالا گیا بلکہ ڈپٹی اسپیکر صاحب نے خود ہی جج اور جلاد کا کردار ادا کرتے ہوئے 197 اراکینِ اسمبلی پر غیر ملکی طاقت کیساتھ سازش میں ملوث ہونے کا فیصلہ صادر کردیا۔ماضی میں جیسے نظریۂ ضرورت نے پچھلے مارشل لائوں کیلئے دروازے کھولے تھے، اب غیر ملکی سازش اور عدم اعتماد کو مسترد کرنے کا راستہ بھی کھل سکتا ہے، اب سپریم کورٹ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے راستوں کو بند کرے۔ اتوار کے روز ہونے والی کارروائی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے لیکن میں اُس سے قبل کالم لکھ چکا ہوں گا۔ اُمید ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ملکی مفاد میں ہوگا اور اُس کا احترام کیا جائے گا۔
دوسری بھاری قیمت ہماری خارجہ پالیسی کے حوالے سے ادا کی گئی ہے اور مزید کی جائےگی۔ بڑے دعوے کیے جاتے تھےکہ عمران خان پاکستان کو بین الاقوامی تنہائی سے نکال کر دوبارہ عالمی اسٹیج پر لے آیا ہے، در حقیقت اِس دورِ حکومت میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک سے بڑھ کر ایک غلط اقدام اُٹھائے گئے،وہ چاہے سی پیک میں تاخیر کرکےچین کو ناراض کرنا ہو،سعودی عرب کو ناراض کرنا ہو یاوزیر اعظم کا دورۂ روس ہو جو پاکستان کی ساکھ کو کمزور کرنے کا باعث بنا۔ اور ہم اِس زعم میں مبتلا ہیں کہ پاکستان ہی تمام عالمی طاقتوں کا مرکز ومحور ہے، وہ طاقتیں پاکستان کو دبانا چاہتی ہیں اور مل کر پاکستان کیخلاف سازشیں کر رہی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح بے پر کی اڑائی گئی باتوں کو سنجیدہ دنیا میں نہ صرف مذاق سمجھا جاتا ہے بلکہ ٹھوس شواہد کے بغیر ایسی باتیں کرنا ملک کیلئے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ آرمی چیف نے اپنے بیان میں نہ صرف پاک امریکہ تعلقات مضبوط ہونے کا عندیہ دیا بلکہ اِن تعلقات میں مزید وسعت کی اُمید بھی ظاہر کی۔
تیسری قیمت جو ہمیں چکانا پڑے گی وہ پی ٹی آئی کی پھیلائی نفرت اور پولرائزیشن کی صورت میں ہوگی کیونکہ اب لوگ زبانی کلامی بحث مباحثوں سے ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے تک آ گئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تمیز، تہذیب اور ایک دوسرے کو عزت دینے والا جو کلچر موجود تھا وہ مفقود ہو تا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز ہی نواز شریف کے لندن دفتر کے باہر اِس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا جہاں پی ٹی آئی کے 10 سے 15 کارکن ماسک سے منہ چھپائے پہنچے اور(ن) لیگی کارکنوں سے ہاتھاپائی کرنے لگے۔ پھر یہ بھی خدشہ موجود ہے کہ جتنا اِس غیر ملکی سازش کا ڈھنڈورا پیٹا جا چکا ہے اور مزید پیٹا جا رہا ہے ، کل کو امریکہ میں مقیم کوئی خان صاحب کا حامی ایسا کچھ نہ کر بیٹھے جس سے پاکستان اور پاکستانیوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ سوشل میڈیا پر گالی کاکلچر عام ہو چکا ہے۔ یہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا سبق سیکھا رہے ہیں، اِس پر ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
یہ امر بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ عمران خان اور اُن کے حامی آخر جشن کس چیز کا منا رہے ہیں؟جو حکومت پانچ سال پورے کرنا چاہتی تھی وہ آج تقریباً اپوزیشن کی کہی باتوں کو ہی پورا کرتی نظر آ رہی ہے۔ قبل از وقت انتخابات کا اعلان بھی ہو چکا ہے، یہ بھی اپوزیشن کی خواہش تھی، لیکن طریقہ بہت غلط تھا۔پھر آئین کی خلاف ورزی اور جمہوریت کا مذاق اُڑانے پر بھی جشن منایا جا رہا ہے اور یہ سمجھا جا رہا ہے جیسے بہت بڑی فتح حاصل کر لی گئی ہو۔ ماضی میں لگائے جانے والے مارشل لائوں اور ایمرجنسیوں پر بھی جشن منائے گئے تھے لیکن اِس سے ہمارا آئین مزید کمزور ہوا تھا۔
اب پاکستان کا مسئلہ اپوزیشن کے مطالبات اور پی ٹی آئی کےحکومت میں رہنے سے آگے جا چکا ہے، اور یہی اب حقیقی مسئلہ ہے۔ اب مسئلہ عدم اعتماد نہیں رہا بلکہ اصل مسئلہ آئینی بحران بن چکا ہے، آئین کی یوں کھلے عام خلاف ورزی قابلِ برداشت نہیں۔ اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں نہ صرف آئین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے بلکہ اُس کا مذاق بھی اُڑایا جاتا ہے یا پھر ہمیں ایک ایسے ملک میں رہنا ہے جہاں آئین کا پاسداری کی جاتی ہے۔
اتوار کے روز جو ہوا وہ قبل از وقت انتخابات تک پہنچنے کا بدترین راستہ تھا، یہ ایک ایسا راستہ ہے جس پر چلنے کی قیمت ہماری آنے والی نسلوں کوچکانا پڑے گی۔ یہی بات ڈھول بجانے والوں ، آتش بازی کرنے والوں اورامریکہ (جس کی حکومت ختم کرنے کی سازش اپنی حکومت خود ختم کر کے ناکام بنائی گئی)میں رہنے والے پی ٹی آئی کے حامیوں، جو وہاں جشن منا رہے تھے، کو سمجھ نہیں آتی۔اب ایک مرتبہ پھر سے ’’نیاپاکستان، نیا پاکستان ‘‘ کی رَٹ لگانے والے کہیں پرانا پاکستان بھی نہ گنوا بیٹھیں۔
کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔