Time 08 اپریل ، 2022
بلاگ

دھمکی آمیز خط اور ڈاکٹر آصف محمود کا الیکشن

پچھلے دو ہفتوں سے پاکستان میں دھمکی آمیز خط اور اس کے سیاست پر ممکنہ اثرات زیر بحث ہیں۔ امریکا میں نہ صرف محکمہ خارجہ بلکہ وہ اراکین کانگریس جن کا پاکستان یا پاکستانیوں سے گہرا تعلق ہے، وہ بھی اس دھمکی آمیز خط کی بازگشت سن رہے ہیں مگر اسی امریکا میں ایک ایسا پاکستانی بھی ہے جس کی حمایت میں بائیڈن انتظامیہ کے افراد، اراکین کانگریس اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ پیش پیش ہیں۔

وہ شخص پاکستانی امریکن ڈاکٹرآصف محمود ہیں جو مڈ ٹرم الیکشنز میں ڈیموکریٹ پارٹی کے ٹکٹ پر کیلی فورنیا سے قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر آصف محمود کیلی فورنیا کے ڈسٹرکٹ 40 سے امیدوار ہیں اور ان کی پرائمری یعنی حلقے میں کھڑے تمام امیدواروں میں سے سرفہرست 2 امیدواروں کا چناؤ ماہ جون کی 7 تاریخ کو کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹرآصف محمود کا مقابلہ ری پبلکن حریف یونگ کم سے متوقع ہے جو پچھلے انتخابات میں اسی ریاست سے منتخب ہوئی تھیں تاہم اب نئی حلقہ بندی نے انہیں ایک پاکستانی امریکن کے مدمقابل لاکھڑا کیا ہے۔

کیلی فورنیا کا ڈسٹرکٹ 40 کئی لحاظ سے اہم ہے، رقبے میں پاکستان جتنی بڑی امریکی ریاست میں یوں تو پاکستانیوں کی قابل ذکر تعداد آباد ہے مگر ڈسٹرکٹ 40 میں ان کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ پورے ایشیائی امریکنز کی تعداد حلقے کی مجموعی آبادی کا صرف 2 فیصد ہے،  دیگر میں 4 فیصد سفید فام ،4 فیصد ہی سیاہ فام ہیں اور نسلی تناظر سے دیکھا جائے تو ہسپانوی امریکیوں کی تعداد سب سےزیادہ یعنی 88 فیصد ہے۔ 

یہ کم اور متوسط آمدنی اور معمولی تعلیمی قابلیت رکھنے والوں کی اکثریت کا حلقہ ہے ۔ سات لاکھ آبادی والے اس حلقے کی ہر گلی، محلے میں لوگ انگریزی سے زیادہ ہسپانوی بولتے نظر آتے ہیں۔ مذہب کے لحاظ سے دیکھیں تو مسلم ووٹرز کی تعداد اتنی کم ہے کہ ان کا کسی ایک جانب جھکاؤ کسی کی جیت یا ہار پر غیر معمولی اثر نہیں ڈال سکتا۔

پاکستان جیسے ملک میں کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت ہوتی تو امیدوار کھڑا کرتے ہوئے سو بار سوچتی کہ اس شخصیت کا تعلق کس برادری سے ہونا چاہیے اور کس مذہب سے ہونا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹ لینا آسان ہو۔  اس کے برعکس امریکا کی حکمراں ڈیموکریٹ پارٹی نے کسی ہسپانوی شخصیت کے بجائے ڈاکٹر آصف کو ٹکٹ دیا ہے۔

یوں ڈاکٹر آصف محمود کا ایک ایسے حلقے سے منتخب ہونا جہاں نہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد ہو نہ ہی مسلمانوں کی، کسی کرشمے سے کم نہی ہوگا۔ اس سے پہلے کئی مسلم اراکین کانگریس الیکشن جیتے ہیں مگران کے حلقوں کی نوعیت مختلف تھی۔ منی سوٹا سے منتخب صومالین الہان عمر کا ڈسٹرکٹ 5 افریقی امریکی کمیونٹی کا گڑھ ہے، اسی طرح فلسطینی رشیدہ طلیب کے مشی گن حلقے یعنی ڈسٹرکٹ 13 میں عرب ممالک سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔

ووٹرز کی توجہ ایک ہی شخص پر مرکوز رکھنے کے لیے ڈیموکریٹس نے ڈاکٹر آصف کے حلقے میں کسی اور ڈیموکریٹ خواہش مند کے امیدوار بننے کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی۔ اس طرح ری پبلکنز کے تین خواہشمندوں کے مقابلے میں وہ واحد ڈیموکریٹ امیدوار ہیں ایک کے بعد دوسرا اہم ڈیموکریٹ لیڈر ڈاکٹر آصف محمود کی نہ صرف حمایت بلکہ ان کی انتخابی مہم میں رقوم بھی جمع کرارہا ہے۔

ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شف بھی ان ہی میں سے ایک ہیں جنہوں نے دل کھول کر ڈاکٹرآصف کی مہم میں چندہ دیا ہے۔ ایوان کی امور خارجہ کمیٹی کے رکن بریڈ شرمین بھی ڈاکٹر آصف کے مداحوں میں سے ایک ہیں۔ انہی بریڈ شرمین سے جب ڈاکٹر آصف نے دھمکی آمیز خط کا ذکر کیا تھا تو شرمین نے براہ راست محکمہ خارجہ سے معاملے پر تشویش کااظہار کیا،جس پر شرمین کو تحریری طورپر بتایا گیا کہ 'ان الزامات میں کوئی حقیقت نہیں'۔

ڈاکٹر آصف کو فنڈ دینے والے اراکین کانگریس میں بریڈ شرمین سرفہرست ہیں، شرمین ان کی مہم کو 14 ہزار ڈالر دے چکے ہیں، یہ وہی بریڈ شرمین ہیں جنہوں نے کانگریس میں مسئلہ کشمیر پر سماعت کے موقع پر بھارت کی کلاس لی تھی۔ سینیٹر کوری بُوکر 5 ہزار ، کانگریس مین ٹڈ لو4 ہزار، مائیک لیون اور الیکس پیڈیلا ڈھائی ڈھائی ہزار، کیرن باس 2 ہزار اور کانگریس ویمن جوڈی چو ایک ہزار ڈالر دے چکی ہے۔

سینیٹر باب مینیڈیز ہوں، کانگریس مین راؤکھنہ یا کیلی فورنیا کے گورنر نیوسم ہر اہم ڈیموکریٹ ڈاکٹر آصف کی انتخابی مہم میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ ایسے ہی افراد کی بدولت ڈاکٹر آصف نے پہلے چارماہ میں اپنی انتخابی مہم کے لیے ابتک ڈیڑھ ملین ڈالر جمع کرلیے ہیں۔ ان کے نام کی توثیق اور عطیات دینے والوں میں یہودی، مسیحی، مسلم، ہندو، سکھ اور بدھ مت سمیت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔

یہ افراد جانتے ہیں کہ ڈسٹرکٹ 40 ان چند اہم ترین حلقوں میں سے ایک ہے جس پر امریکا بھر کی نظریں ہیں اور جہاں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

ڈاکٹر آصف یہ سیٹ ری پبلکن حریف سے چھیننے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ڈیموکریٹ پارٹی کے لیے یہ انتہائی اہم ہوگا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی کے رجحانات پر نظرڈالیں تو امریکا میں جس پارٹی کا صدر ہو وہ جماعت وسط مدتی یعنی مڈٹرم الیکشنز میں کئی نشستیں کھودیتی ہے۔ پچھلے 80 برس میں ڈیموکریٹس کے ساتھ تو یہ بار بار ہوا ہے۔

معیشت کی بحالی میں ناکامی ، کورونا وبا کے تاحال اثرات اور اب یوکرین کی صورتحال کے سبب منہگائی کا نیا طوفان صدر بائیڈن کی مقبولیت کو تیزی سے کم کر رہا ہے۔ تازہ سروے کے مطابق 56 فیصد افراد سمجھتے ہیں کہ صدر بائیڈن اپنے منصبی فرائض درست طورپر انجام نہیں دے رہے جبکہ 43 فیصد سمجھتے ہیں کہ بائیڈن درست اقدامات کررہے ہیں۔

انہی وجوہات کے سبب مڈٹرم الیکشن میں ایک ایک سیٹ اہم ہے اور جیتنے والا اہم عہدے کا حقدار بن سکتا ہے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر آصف محمود کے لیے یہ سیٹ جیتنا آسان تو نہیں مگر خاطر خواہ فنڈ جمع کرکے وہ پانسہ پلٹنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں کیونکہ امریکا میں جو زیادہ رقم اشتہارات پر خرچ کرکے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا کر ذہن میں اتار دیتا ہے اسکے جیتنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر آصف محمود کا اب یہ نشست جیتنا اس لیے بھی اہم ہے کہ کانگریس میں کوئی ایک پاکستانی تو ہو جو پاکستان کے حق میں ٹھوس آواز اٹھاسکے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔