بلاگ
Time 16 اپریل ، 2022

کیا امریکہ کو سازش کی ضرورت تھی؟

بھٹو مرحوم کو اقتدار سے ہٹائے جانے یا اُنہیں تختۂ دار پر لٹکائے جانے کا درد اِتنا اُن کے لواحقین یا پارٹی ورکرز کو نہیں ہے جتنا ان دِنوں ہمارے ایک سابق کرکٹر اور قومی رہنما کو ہے۔ فرما تے ہیں کہ امریکہ نے سازش کرکے بھٹو کو حکومت سے اتارا اور پھر میر جعفروں اور چوروں سے پھانسی لگوائی۔ معلوم نہیں میر جعفروں اور چوروں سے ان کی مراد کون لوگ ہیں؟ مرحوم کے لواحقین اسے اب تک عدالتی قتل قرار دیتے ہیں۔ 

رہ گئی امریکی سازش تو اِس کے بارے میں جتنی آگہی مرحوم کی دختر محترمہ بےنظیر بھٹو کو تھی، کسی اور کو نہ تھی۔ یہ حقیقت پارٹی ریکارڈ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے کہ بی بی صاحبہ نے اس حوالے سے اپنے مشتعل کارکنوں کو نہ صرف یہ کہ امریکی پرچموں کی بےحرمتی سے روک دیا تھا بلکہ امریکہ کے خلاف نعرے بازی کو بھی ختم کروا کے دم لیا تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو سے ہم لاکھ اختلاف کرتے ہوئے جتنی چاہے تنقید کر لیں پھر بھی ان کی سیاسی اہمیت و پہچان سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر ایک ایسا شخص جس کی ساری زندگی کھیل تماشے میں گزری ہو اور اس کا سیاسی کردار سوائے طاقتوروں کی تھپکی کے کچھ نہ رہا ہو، اسے اس نوع کے بلند بانگ دعوے کرتے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ جس مبینہ خط کا اتنا واویلا کیا جارہا ہے بقول ڈاکٹر اسد مجید کے، سفارت کاری میں ایسی کیبل کوئی غیرمعمولی یا حیرت انگیز چیز نہیں ہے۔

 رہ گئی امریکی سازش تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں کھل کر بات کی ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں ’’سازش‘‘ کا لفظ تک نہیں ہے اگر غیرسفارتی زبان کو مداخلت کہہ دیا جائے تو اس پر بھی ڈیمارش کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ میں انہوں نے ایبسلوٹلی ناٹ کا پتہ بھی یہ کہتے ہوئے صاف کردیا کہ امریکیوں کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ سرے سے آیا ہی نہیں تھا۔ اگر آتا بھی تو اس پر ہمارا بھی یہی جواب ہوتا۔

یہاں ایسے بقراط بھی ہیں جنہیں سازش اور مداخلت میں فرق سمجھ نہیں آ رہا حالانکہ سازش میں تو ایک نوع کی منصوبہ بندی ہوتی ہے جبکہ مداخلت تو اچھی بری کسی بھی بات کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، ان کے اگرخلاف پاکستان کوئی بیان جاری کرتا ہے تو بھارت یہ کہہ سکتا ہے کہ پاکستان ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے لیکن پاکستان اگراُن مظلوم مسلمانوں کو بھارتی جبر سے چھٹکارا دلانے کا کوئی منصوبہ بنارہا ہے تو بھارت اسے اپنے خلاف سازش قرار دے سکتا ہے۔

 ابھی حال ہی میں یوکرائن پر روسی حملے کے پس منظر میں امریکہ نے ہندوستان کو روس سے تجارتی تعلقات پر کھلے بندوں اچھی خاصی سنائی ہیں جو ہمارے سفارتی مراسلے سے کہیں بڑھ کر ہیں، کیا اس پر مودی سرکار کا یہ کہنا بنتا ہے کہ امریکہ یا جوبائیڈن اس کی حکومت گرانے کے لیے سازش کر رہے ہیں؟امریکہ کا اسرائیل یا سعودی عرب سے بڑا اتحادی کون ہوگا کئی مواقع پر امریکی حکومتوں نے اپنے ان اتحادیوں یا ان کی حکومتوں کے حوالوں سے بہت کچھ کہا ہے، عالمی سفارت کاری میں اس نوع کی ایک سو ایک مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اس نوع کی کڑیاں ملاتے ہوئے خود کو عالمی سطح کا لیڈر یا مدبر ثابت کرنا سوائے سستی سیاسی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کے کچھ نہیں۔

کیاامریکہ نے آپ کو کہا تھا کہ لمبے چوڑے دعوے اور وعدے کرو اور پھر یوں بری طرح ٹھس ہو جائو؟ کیا یہ امریکہ نے کہا تھا کہ اپنی نااہلی سے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کرتے ہوئے اپنی قوم کو مہنگائی کے سونامی میں ڈبو دو؟ کیاامریکہ نے یہ کہا تھا کہ اپنی بدزبانی سے قومی سیاست میں منافرتوں کے زہر گھول دو اور جب عدم اعتماد کی تحریک آ جائے تو پھر طاقتوروں سے بچائو کی بھیک مانگو، نہ ملے تو طاقتوروں کے خلاف گندے پروپیگنڈے کی بوچھاڑ کردو؟ جس شخص کو یہ تک معلوم نہ ہو کہ اگر عدم اعتماد کی قرار داد آ جائے تو آئینی تقاضا ہے کہ اس پر سات دن کے اندر اندر رائے شماری لازم کرائی جائےنیز اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی ختم ہو جاتا ہے تو اسے اتنی اہم ذمہ داری پر براجمان رہنے کا کیا حق حاصل ہے؟

جناب اپنی غیر پارلیمانی زبان کا وتیرہ ضرور جاری رکھیے اور پھر اس کے نتائج بھگتنے کے لیے بھی تیار رہیے البتہ آنے والے دِنوں میں مظلومیت کا لبادہ اوڑھنے سے احتراز کیجئے۔ دوسرے قومی سیاستدانوں کو چور ڈاکو کہتے اور خود کو مہاتما کے روپ میں پیش کرتے ہوئے اپنے ان ’’کارناموں‘‘ پر بس ایک نظر ڈال لیجئے جن کی تفصیلات جلد قوم کے سامنے آنے والی ہیں اور آ رہی ہیں۔ قومی سیاست میں اتنی منافرت پھیلانے والے کے لیے کسی امریکی سازش کی کیا ضرورت تھی؟ ماشاء اللہ خود آپ سے بڑھ کر آپ کا دشمن کون ہو سکتا ہے؟ رہ گئی پارٹی تو توڑ پھوڑ کے بعد اس کے بکھرنے کا منظر نامہ کسی اگلے کالم میں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔