20 اپریل ، 2022
’’ان شاء اللہ ملک میں اب مارشل لا کبھی نہیں آئے گا۔ فوج کا سیاست میں کوئی کام نہیں اور پاکستان کا مستقبل جمہوریت میں ہے۔‘‘ پاک فوج کے ترجمان کا یہ بیان یقینی طور پر جمہوری سوچ رکھنے والوں کیلئے باعثِ اطمینان ہے۔ اگر اس ’’نئے ملٹری ڈاکٹرائن‘‘ پر سختی سے عمل کیا گیا تو امید ہے سیاست دان اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے اور کسی ’’فون‘‘ کے منتظر نہیں رہیں گے۔
غلطیاں تو سب سے ہوتی ہیں، اب وقت آگیا ہے سبق سیکھنے کا! جو بات اب کی گئی ہے، کاش 1958ء میں کی جاتی اور اسکندر مرزا، غلام محمد، محمد علی بوگرہ اور ایوب خان جیسے لوگ سیاست کا حصہ نہ ہوتے، کاش! جسٹس منیر جیسے جج نہ ہوتے تو آج نظریۂ ضرورت کو ختم کرنے کی بات نہ ہوتی۔ جمہوریت کا مستقبل خاندانوں سے نہیں، سیاستدانوں سے وابستہ ہے جو کسی گیٹ یا غیر جماعتی الیکشن سے نہیں ایک عملی جدوجہد سے آنے چاہئیں۔
یہاں تو صرف منتخب وزیراعظم کو ہی پھانسی نہیں دی جاتی، شہید نہیں کئے جاتے بلکہ طاقتور فوجی حکمران بھی ’’پراسرار‘‘ طیارہ حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں اور آج تک پتا نہیں چلتا سازش اندرونی تھی یا بیرونی…؟ ہمارا ماضی ہمیشہ ہمارا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ امریکا سازش نہیں کرتا، مداخلت نہیں کرتا تو وہ یا تو تاریخ سے ناواقف ہے یا کسی مصلحت کا شکار ہے۔
اب موجودہ صورتحال میں حقیقت کیا ہے، اس کا فیصلہ تو اعلیٰ سطح کا کمیشن ہی کرسکتا ہے اور یہ بات جتنی جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے تو ملک کیلئے بہتر ہے کیونکہ محض ’’امریکا مخالف‘‘ بیانیے کو اپنے سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اچھا ہوتا اگر تھوڑی ’’خود داری‘‘ آئی ایم ایف اور اسٹیٹ بینک کے معاملے پر بھی دکھائی ہوتی۔
اس وقت ثابت یہ کرنا ہے کہ ’’عدم اعتماد کی تحریک‘‘ منظم امریکی سازش تھی یا منحرفین اور سابقہ اتحادی بھی اس کا حصہ تھے؟ تیسرا یہ کیسی سازش تھی جس کی باضابطہ اطلاع اس کو دی گئی جس کے خلاف یہ سازش ہونے جا رہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک ایک ’’عمرانی لہر‘‘ میں مبتلا ہے اور امریکی مخالف بیانیہ زور پکڑ رہا ہے جس کی ہمارے ملک میں ایک تاریخ ہے بائیں بازو سے دائیں بازو تک… 1972ء میں ایک ایسے ہی مظاہرے میں ہمارے ساتھی عابد علی سعید صاحب نے امریکی قونصلیٹ جو اس وقت پرانی عمارت میں ہوتا تھا، چڑھ کر امریکی جھنڈا اتار لیا تھا، مظاہرہ ویتنام جنگ میں امریکا کے کردار کے خلاف تھا۔
1979ء میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو بھی امریکی سازش سے تعبیر کیا گیا کیونکہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے 1976ء میں براہ راست بھٹو کو ’’نشانۂ عبرت‘‘ بنانے کی دھمکی دی تھی لہٰذا پی پی پی اور تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے جلوسوں میں یہ نعرے لگتے تھے اور امریکی پرچم جلتے…! یہ سلسلہ 90ء کی دہائی میں بند ہوگیا، ایسا کیوں ہوا، اس پر پھر کبھی…!
روس افغانستان میں آیا تو افغان جہاد نے ایک نیا رُخ اختیار کیا۔ روس کی واپسی کے بعد پاکستان ایک نئی مشکل میں پھنس گیا، یہاں درجنوں گروپس بن گئے اور پھر 9/11 کے بعد ’’امریکا کا جو یار ہے، غدار ہے‘‘ دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں کا پسندیدہ نعرہ بن گیا، کل کے حلیف آج حریف ہوگئے۔ اب یہ بیڑہ خان نے اٹھا یا ہے اور ایک بار پھر ملک میں امریکی مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔
اس وقت خان صاحب ’’عدم اعتماد کی تحریک‘‘ کے پس پردہ امریکی سازش دیکھ رہے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے کراچی کے ایک بڑے جلسے میں ’’مداخلت‘‘ کی تھیوری کو مسترد کرکے ’’سازش‘‘ کے بیانیے کو ہی بنیاد بنا کر ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اس پر راضی تو نظر آتے ہیں اور نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کرنے والے ہیں۔
خان صاحب کے بقول اس سازش کے تانے بانے یہاں اور واشنگٹن سے ملتے ہیں۔ 8؍مارچ سے 9؍اپریل تک جو کچھ ہوا سیاسی محاذ پر، اس کو وہ اس متنازع مراسلے کا تسلسل سمجھتے ہیں جس میں ان کے بقول امریکا نے واضح طور پر پاکستان کو دھمکی دی تھی۔ اب اس دوران پاکستان میں اسلامی وزرائے خارجہ کی کانفرنس بھی ہوئی اور اعلیٰ امریکی عہدیدار بھی اسلام آباد آئے۔
کیا ہمارے وزیر خارجہ نے ان کے ساتھ بات چیت میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا؟ دوسرا مجھے آج بھی اس سوال کا جواب نہیں مل پا رہا کہ آخر 28؍مارچ کو جب عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کی گئی تو اس وقت شاہ محمود قریشی یا کسی اور حکومتی وزیر کی طرف سے ’’عدم اعتماد‘‘ پر اعتراض کیوں نہیں کیا گیا، بات 3؍اپریل تک آگئی۔ اس دن ووٹنگ ہونی تھی مگر اچانک فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر پرخطاب کیا، دوسری سائیڈ کو سنے بغیر ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس ہی ملتوی کردیا اور بات سپریم کورٹ تک پہنچ گئی جہاں پانچ رکنی بنچ نے متفقہ فیصلہ دیا کہ 9؍اپریل کو صبح 10:30؍بجے اجلاس بلا کر 3؍اپریل کی پوزیشن پر ووٹنگ کرائی جائے۔
اب خان صاحب سے معذرت کے ساتھ آپ کو یہ تو برا لگ رہا ہے کہ سپریم کورٹ رات 12؍بجے کیوں لگی مگر یہ تو بتائیں حضور! رات 12؍بجے تک قومی اسمبلی کیوں چلتی رہی؟ صبح ووٹنگ ہو جاتی، دوپہر کو ہو جاتی، شام کو ہو جاتی! آپ خود اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں، ہم کہیں گے تو شکایت ہوگی۔
خان صاحب! آپ کو یاد ہوگا 3؍نومبر 2008ء اس وقت بھی عدالت رات کو لگی تھی اور سات رکنی بنچ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ بھی دیا تھا اور جنرل مشرف کی ایمرجنسی کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اگر آپ رات کو عدالتی احکامات کے باوجود فیصلے پر عمل نہیں کریں گے، آئین کی سنگین خلاف ورزی کریں گے تو عدالت رات کو ہی لگے گی۔
اب یہ نکتہ عین ممکن ہے نظرثانی درخواست میں سامنے آئے۔ رہ گئی بات ضمیر فروشی کی تو جب تک ہماری سیاست سے اس کا خاتمہ نہیں ہوتا، نہ سیاست آگے بڑھے گی نہ جمہوریت! مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ 2018ء میں ضمیر فروش باضمیر کہلائیں اور 2022ء میں ضمیر فروش! اس پر اتفاق رائے ضروری ہے۔
آخر میں صرف ایک درخواست کہ خدا کیلئے ’’غداری‘‘ کی اسناد دینا بند کریں۔ کسی نے اگر غداری کی ہے تو خصوصی ٹریبونل بنائیں اور جرم ثابت ہو تو سزا دیں۔ کراچی کے جلسے میں ایک نظم پڑھی جارہی تھی؎ ہم دیکھیں گے… اس کے خالق فیض احمد فیض راولپنڈی کیس کے اہم ملزم تھے۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ غدار وہ نہیں تھے۔ آگے آپ سمجھدار ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔