22 اپریل ، 2022
حمزہ شہباز شریف کی تقدیر میں اقتدار کم اور افتاد و تکالیف زیادہ رہیں۔ زمانہ طالب علمی میں قید کاٹی، صدر مشرف کے دور میں سارا خاندان جلا وطن ہو گیا لیکن حمزہ تاوان کے طور پر وطن میں رہا، جبر اور چیرہ دستیوں سے پالا پڑتا رہا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حمزہ جو وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوا ہے، یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ نہیں تھا، نہ کسی نے اس کی منصوبہ بندی کی نہ اس کے لیے کسی نے لابنگ۔
مسلم لیگ ن تو طے کر چکی تھی کہ وزارتِ اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو دے دی جائے گی، حمزہ کا وزیر اعلیٰ بننے کا دور دور تک کوئی چانس نہ تھا، تقدیر نے ایسا پلٹا کھایا کہ چودھری پرویز الٰہی متحدہ اپوزیشن کو چھوڑ کر عمران خان کے ساتھ چلے گئے، اس پلٹے کے بعد ہی حمزہ شہباز شریف کی باری کا موقع بنا۔
تقدیر کا ستم دیکھیں کہ پہلے پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے لیے ان مراحل سے گزرنا پڑا جن سے آج تک کبھی کوئی نہ گزرا تھا۔ مار کٹائی، لڑائی جھگڑا، دنگا فساد سب کچھ ہوا، اس دوران اپوزیشن کی صفوں میں حمزہ کے علاوہ کوئی ایک نام بھی وزارتِ اعلیٰ کے متبادل کے طور پر سامنے نہ آیا۔
میں تو سمجھتا ہوں کہ حمزہ شہباز کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے فیصلہ نہ نواز شریف نے کیا نہ شہباز شریف نے کیا بلکہ یہ فیصلہ حالات اور مقدر نے کیا۔ معترضین کا یہ کہنا کہ اوپر باپ وزیراعظم اور نیچے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ بیٹا، یہ ہے تو حقیقت لیکن اس حقیقت کے وقوع پذیر ہونے میں پلاننگ کم اور حالات کا جبر زیادہ ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ن لیگ میں پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز سے کوئی بڑا نام اور تجربہ والا لیڈر بھی موجود نہ تھا، حمزہ بھی واحد لیڈر تھا جس پر ترین گروپ، علیم خان گروپ اور اسد کھوکھر گروپ وغیرہ کا اتفاق ہو سکتا تھا اور ہوا بھی ایسے ہی۔
اب بھی پنجاب میں جو ہو رہا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ حمزہ وزیراعلیٰ منتخب ہو چکے مگر گورنر ان کا حلف لینے کو تیار نہیں، ظاہر ہے کہ حلف تو لینا پڑے گا، اس میں کتنی تاخیر کر لیں گے بالآخر تو حمزہ کو ماننا ہی پڑے گا۔
حمزہ شہباز شریف اس سے پہلے کبھی بھی کسی بڑے انتظامی عہدے پر نہیں رہے یہ الگ بات ہے کہ والد کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں وہ کئی میٹنگوں کی صدارت کرتے رہے، اپنی پارٹی کے ہر ضمنی انتخاب کے نگران رہے اور پارٹی کی تنظیم اور ٹکٹوں کے معاملات دیکھتے رہے لیکن وزارتِ اعلیٰ جیسے بڑے عہدے کے چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے لیے انہیں بھی تیار ہونا پڑے گا۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے دور حکومت سے اس بڑے صوبے میں گورننس اور بری طرز حکمرانی کا بحران پیدا ہو چکا ہے۔ اسی طرح اس بڑے صوبے سے ن لیگ کی ساری قیادت تعلق رکھتی ہے، اس صوبے کو چلا کر دکھانا ایک کارنامہ ہو گا۔
حمزہ شہباز شریف کے لیے پارٹی اور خاندان کے چیلنجز بھی موجود ہوں گے، پنجاب میں کئی برسوں سے پارٹی تنظیم حمزہ ہی چلا رہے ہیں، حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد کارکنوں اور تنظیم کی امیدیں بڑھیں گی اور حمزہ کو ان کے مسائل حل کرنا پڑیں گے، ان کی دیکھ بھال کرنا پڑے گی۔
خاندانی حوالے سے مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف میں بڑی انڈر اسٹینڈنگ ہے، دونوں نے گھنٹوں اکٹھا لانگ مارچ کیا، اکٹھے تقریریں کیں اور اپوزیشن کی سیاست بھی مل کر کی، اب انہیں اقتدار کی سیاست بھی مل کر کرنا ہو گی۔
فی الحال تو مریم نواز اپنی نااہلی کی وجہ سے اقتدار سے باہر ہیں لیکن جب بھی عدالتوں سے ان کی نااہلی ختم ہو گی تو وہ بھی حکومت کا حصہ بنیں گی، کیا وہ اگلے انتخابات کے بعد پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی امیدوار بنیں گی یا مرکز میں کوئی عہدہ لیں گی؟ ابھی ان کے ارادوں کا علم نہیں لیکن وہ جلد ہی پارٹی کے تنظیمی اور سیاسی دوروں پر نکلیں گی۔
عمران خان کے جواب میں اپنی پارٹی کا بیانیہ بنائیں گی اور اپنے ووٹرز کو اگلے الیکشن کے لیے تیار کریں گی۔
حمزہ شہباز شریف رومانوی آدمی ہیں وہ عوامی خدمت کو بھی رومانس سمجھ کر کرتے ہیں، عہدوں کا لالچ نہیں ہے مگر اب اگر اتنا بڑا عہدہ ملا ہے تو انہیں اس عہدے کے مطابق اپنے کام کی رفتار کو بڑھانا ہوگا۔
شہباز شریف گورننس اور تیز رفتاری میں نمایاں تھے، حمزہ شہباز کو بھی اس حوالے سے ان کی پیروی کرنا ہو گی، شہباز کی پنجاب اسپیڈ سب کو یاد ہے، حمزہ کو اپنی اسپیڈ کا ریکارڈ بنانا ہو گا۔
بطور وزیراعلیٰ حمزہ شہباز شریف کے لیے سب سے بڑا چیلنج والد کی چھوڑی ہوئی روایات پر عمل کرنا ہے، اگر وہ تھوڑی سی سستی بھی دکھائیں گے تو ان پر انگلیاں اٹھیں گی۔ توقع یہی کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے والد ہی کے گورننس ماڈل پر چلیں گے، والد ہی کے زمانے کے بیوروکریٹ ان کے ممدو معاون ہوں گے۔
سنا گیا ہے کہ حمزہ شہباز کی پنجاب کابینہ میں زیادہ تر نئے شامل ہونے والوں کو لیا جائے گا، پرانے چند لوگ ہوں گے، مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ نئے لوگوں اور بالخصوص اتحادیوں کو اکاموڈیٹ کیا جائے تاہم اس میں مسئلہ یہ ہوگا کہ ایک مثالی ٹیم تشکیل نہیں دی جا سکے گی، یہ وقت ٹپاؤ کام ہوگا۔ میرے خیال میں ٹیم سلیکشن بہت سوچ سمجھ کر کی جائے کیونکہ ٹیم اچھی ہو گی تو ڈیلیوری اچھی ہو گی۔
وزیراعظم شہباز شریف جہاں اقتصادی مسائل اور بڑے بڑے ایشوز دیکھ رہے ہوں گے وہاں حمزہ شہباز شریف کو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب سیاست کی نبض پر ہاتھ رکھنا ہو گا۔
الیکشن سر پر کھڑے ہیں۔ چھ ماہ یا ایک سال کے اندر اندر الیکشنز ہو جائیں گے، اس مختصر مدت میں حمزہ کو گورننس اور سیاست دونوں کی طرف توجہ دینی ہو گی۔
کہا جاتا رہا ہے کہ بزدار کمزور وزیراعلیٰ کی حیثیت سے وزیراعظم عمران خان کو سیاسی سپورٹ نہ دے سکے، حمزہ کو کچھ مختلف کرکے دکھانا ہوگا تبھی جاکر اگلا الیکشن ن لیگ جیت سکے گی۔ حمزہ شہباز کے لیے ایک بڑا سیاسی چیلنج پی ٹی آئی بھی پیدا کرے گی۔
خدشہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی طرح پنجاب اسمبلی سے بھی استعفے دے دیں گے تاکہ سیاسی بحران اور بڑھ جائے۔ ایسے میں اپوزیشن کے بغیر اسمبلی چلانا بڑا مشکل ہو گا اور اسمبلی اور حکومت کو اپنی لیجسٹی میسی کے لیے ڈیلیوری کو اتنا بڑھانا ہو گا کہ جو خلا اپوزیشن کے استعفوں سے پیدا ہوگا وہ کسی نہ کسی طرح پورا ہو سکے۔
دیکھنا یہ ہو گا کہ حمزہ شہباز شریف اس ذمہ داری کو کس طرح نبھاتے ہیں۔ کیا وہ شریف خاندان کے شہزادے کے طور پر کام کریں گے یا وہ بھی خادمِ اعلیٰ کے طور پر دن رات ایک کر دیں گے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔